دامانِ مصطفیٰﷺ قطعہ نعتیہ اتنا تو مرے سرور تقریب کا ساماں ہو جب موت کا وقت آئے اور روح خراماں ہو دنیائے تصور میں دربار ترا دیکھوں سر ہو ترے قدموں پر، سر پر ترا داماں ہو ۔۔۔
مزیدتوبہ توبہ قطعہ نعتیہ بھروسہ ہے ہمیں تو شافعِ محشر کی رحمت کا نہ ہوا ایماں جسے لَاتَقْنَطُوْ پر وہ کرے توبہ امیدِ عفو و بخشش پر تو عصیاں کو خریدا تھا تری رحمت سے میں مایوس ہوجاؤں ارے توبہ ۔۔۔
مزیدتمنا تڑپ رہا ہے خلیؔل اس قلق میں طائرِ روح کہ شاخِ نخل مدینہ پہ آشیاں نہ ہوا ۔۔۔
مزیدحاضرئ طیبہ اس دل لگی میں کام مرا بن گیا خلیؔل طیبہ کو کھینچ لے گئی دل کی لگی مجھے ۔۔۔
مزیدصلوٰۃ و سلام بدرگاہِ خیرالانام علیہ التحیتہ والسلام اس کلام کی خصوصیت یہ ہے کہ ہر شعر کا دوسرا مصرعہ کلام رضا سے مستفاد ہے۔مرتب) شام و سحر سلام کو حاضر ہیں السلام شمس و قمر سلام کو حاضر ہیں السلام سب تاجور سلام کو حاضر ہیں السلام جن و بشر سلام کو حاضر ہیں السلام بس اک نگاہ لطف شہنشاہ بحر و بر سب بحر و بر سلام کو حاضر ہیں السلام سرخم ہر ایک اوج کا ہے در پہ آپ کے سب کرّ وفر سلام کو حاضر ہیں السلام گل ہیں نثار قدموں پہ خم ہے جبین کوہ سنگ و شجر سلام کو حاضر ہیں السلام اے جانِ کائنات و مقصودِ کائنات سب خشک و تر سلام کو حاصل ہیں السلام راحت ملی ہے دامن عالم پناہ میں شوریدہ سر سلام کو حاضر ہیں السلام حاضر ہیں سب دعاء و تمنا کے ساتھ ساتھ عرض و اثر سلام و حاضر ہیں السلام اٹھ جائے ہر نگاہ سے اب تو ہر اک حجاب اہل نظر سلام کو حاضر ہیں السلام چارہِ گرِ خلیؔل و مسیحائے کائنات خستہ جگر سلام کو حاضر ہی۔۔۔
مزیدسید شاہ ابوالحسین احمد نوری منقبت برائے عرس نوری رجب ۱۳۷۴ ھ مارہرہ مطہرہ ارسال کردہ شد تعالیٰ اللہ یہ ہے اوجِ مقامِ احمدِ نوری کہ قدسی ڈھونڈتے پھرتے ہیں بامِ احمدِ نوری نہ کیوں لذت دہِ کوثر ہو جامِ احمدِ نوری شہِ تسنیم سے ملتا ہے نامِ احمدِ نوری جہاں پر فضل مولیٰ ہے بنامِ رحمتِ عالمﷺ جہاں میں رحمتِ حق ہے بنامِ احمدِ نوری یہاں سے کالے کوسوں دور ہیں تاریکیاں شب کی منور صبح طیبہ سے ہے شامِ احمد ِ نوری کلام احمدِ نوری کلامِ حق تعالیٰ ہے کلامِ حق تعالیٰ ہے کلامِ احمد نوری غلاموں کو سراغ منزلِ مقصود بتلا جا تو کس منزل میں ہے ماہِ تمام احمدِ نوری خدایا گلشن برکات سے ہم برکتیں پائیں پھلے پھولے سدا نخل مُدام احمدِ نوری مری جانب سے عرض اشتیاقِ دید کردینا صبا جائے جو تو بہر سلامِ احمدِ نوری مجلّٰی آیۂ تطہیر سے ہے پاک دامانی زہے اکرامِ اِجدادِ کِرامِ احمدِ نوری ملے مجھ روسیہ کو بھی تری تنویر کا ص۔۔۔
مزید’’عنوان معرفت ہے مقام ابوالحسین‘‘ منقبت عرس رجب شریف ۱۳۸۲ ھ وہ جام دے ہو جس میں زلالِ ابوالحسین ساقی پھر آرہا ہے خیالِ ابوالحسین امیدوار ایک تجلی کے ہم بھی ہیں نظروں کو ہے تلاشِ جمالِ ابوالحسین تصویریں ہیں یہ جاہ و جلالِ حضورﷺ کی جاہِ ابوالحسین و جلالِ ابوالحسین یارب میری جبیں سے کبھی آشکار ہو تابندگئی ماہ جمالِ ابوالحسین پیتے ہیں، مے پرستی کا الزام بھی نہیں زاہد یہ دیکھ جامِ سفالِ ابوالحسین قادر ہے وہ، جو چاہے تو یوں موت دے مجھے یہ سر ہوا اور خاکِ نعال ابوالحسین معراج زیست ہو جو کہیں عزرئیل یوں آ اے خلیؔل شیریں مقالِ ابوالحسین ۔۔۔
مزیدمِدحتِ احمد رضا منقبت اعلیٰ حضرت محدّث بریلوی قدس سرہ اللہ اللہ نو بہار عظمتِ احمد رضا غنچہ غنچہ ہے زبانِ مدحتِ احمد رضا سایۂ قصرِ دنیٰ میں منزلت پایا ہوا کتنا اونچا ہے مقامِ عزّتِ احمد رضا قربِ حق کی منزلوں میں گم نہ ہوں کیوں رفعتیں جلوہ گاہِ مصطفیٰﷺ ہے رفعتِ احمد رضا مصطفیٰﷺ کی بھینی بھینی نگہتوں میں تہِ بہَ تہِ مہکی مہکی ہے فضائے نکہتِ احمد رضا التفاتِ جلوۂ غوث الوریٰ سے مُنسلِک رشکِ صد جَلُوت ہے یعنی خلوتِ احمد رضا لختِ دل ہے ٹھنڈی ٹھنڈی ضو سے باغ باغ ماہ طیبہ کی ضیاء ہے طلعتِ احمد رضا نور آنکھوں کو ملا خلوت گہِ دل کو سرور جب تصور نے سنواری صورتِ احمد رضا پھیکی پھیکی سی ہے ساقی، صبح و شامِ زندگی آئے پھر گردش میں جامِ لذتِ احمد رضا پھولتا پھلتا رہے گا باغِ مارہرہ مدام کہہ رہی ہے یہ بہارِ برکت احمد رضا بارک اللہ فیضِ عامِ حضرتِ اچھے میاں اچھے اچھوں کا ہے قبلہ سیرتِ احمد رضا جو خلیؔل ز۔۔۔
مزیدحق نما ہے رضا جلوۂ قدرت خدا ہے رضا ظل آیات کبریا ہے رضا پر تو شانِ مصطفیٰﷺ ہے رضا سایۂ فضل مرتضیٰ ہے رضا صبح ایمان کی ضیا ہے رضا شام عرفان کی جلا ہے رضا کعبۂ عشق اصفیا ہے رضا قبلۂ شوقِ اذکیا ہے رضا اعلیٰ حضرت مجددِ ملّت اہلسنت کا مقتدا ہے رضا وارثِ وارثان علم نبیﷺ عطرِ مجموعۂ ہدیٰ ہے رضا فقہِ حنفی کے بے مثال فقیہ بو حنیفہ کا لاڈلا ہے رضا منتہی مبتدی ہیں جن کے حضور ایسے لاکھوں کا منتہا ہے رضا آبگینہ فَقَدْ رَأیَ الحق کا سچ تو یہ ہے کہ حق نما ہے رضا شاہِ بغداد کی توجہ سے قادریوں کا رہَ نما ہے رضا اچھے اچھوں سے نسبتوں کے طفیل اچھے اچھوں کا پیشوا ہے رضا باغِ برکات کی بہارِ نو ہاں رضا ہاں رضا، رضا ہے رضا کوئی مشکل نہیں مُجھے مشکل میرا مشکل کشا رضا ہے رضا ایں ہم از فیضِ مرشد است خلیؔل جلوہ فرمود گاہے گاہے رضا ۔۔۔
مزیدگلستان ِ قاسمی منقبت حضرت مرشد برحق شاہ ابوالقاسم عرف شاہ جی میاں قدس سرہ برموقع عرس شریف صفر ۱۳۶۷ ھ اللہ اللہ کس قدر ہے عز و شانِ قاسمی ڈھونڈتے پھرتے ہیں قدسی آستانِ قاسمی جونبار معرفت، کام و دہانِ قاسمی غرق موجِ ہُو، کلام درخشانِ قاسمی واقفِ اسرارِ حق ہے راز دانِ قاسمی نکتہ سنج و نکتہ رس ہے نکتہ دانِ قاسمی ہے حبیب حقﷺ کی رحمت غوث اعظم کا کرم لہلہاتا ہی رہے گا بوستانِ قاسمی غنچہ غنچہ اس چمن کا سو بہاریں لائے گا پھولتا پھلتا رہے گا گلستانِ قاسمی ہیں جو انکے ماہ و خور انکا تو پھر کہنا ہی کیا ہیں مثال مہ نجومِ آسمانِ قاسمی سر جھکاتے ہیں ادب سے آستانِ پاک پر قدر والے ہی ہوئے ہیں قدر دانِ قاسمی ہے حجاب اکبر ان سے کینہ و بغض و حسد کورِ باطن کیسے دیکھے عز و شان قاسمی پر بچھاتے ہیں ملائک جن قدموں کیلئے ان کی حسرت ہے کہ سر ہو پائیدانِ قاسمی دین کا ڈنکا بجاتے پھر رہے ہیں چارسو خادمانِ دین حق ہی۔۔۔
مزیدنذر ِ عقیدت تجلئ حق شمع عرفان قاسم محمدﷺ کا جلوہ ہے لمعانِ قاسم ذرا دیکھئے تو ہے کیا شانِ قاسم کہ ہے حق مُعَنْوَنْ بہ عنوان قاسم بصد رشک رضوان ہے اللہ اللہ ذرا دیکھئے شانِ دربانِ قاسم گھٹائیں بنیں حلقۂ بدرِ کامل جو رخ پر گری زلفِ پیچان ِ قاسم عجب جمگھٹا میکدے پر لگا ہے کہ قاسم ہیں اور تشنہ کامانِ قاسم عدد کے لئے آپ قہر خدا ہیں کہ باطل ہے لرزاں یہ ہے شانِ قاسم شرابِ محبت کے مستانے آئے عطا ہو کوئی جامِ عرفانِ قاسم رہے بے خودئ محبت ہمیشہ نہ چھوٹے کہیں دست و دامانِ قاسم مجھے خوف کیا ہے مرے پاسباں ہیں محمدﷺ، علی، غوث و پیرانِ قاسم امنگیں مرے دل میں دیدار کی ہیں خدایا! دکھ روئے تابانِ قاسم نگہبان ہیں قاسم خلیؔل حزیں کے خدائے جہاں ہے نگہبانِ قاسم ۔۔۔
مزیدمنقبت مرشد برحق (برسوں کی مفارقت کے بعد حاضری پر عرض کی گئی، عرس قاسمی ۱۳۷۴ ھ) عیاں حالتِ دل کروں توبہ توبہ ترے روبرو کچھ کہوں توبہ توبہ میں اس آستاں سے پھروں توبہ توبہ کہیں اور سجدے کروں توبہ توبہ خودی سے گزر کر ترے سنگِ در پر گروں اور گر کر اٹھوں توبہ توبہ منور نہ ہو جو تری بندگی سے میں اس زندگی پر مروں توبہ توبہ تمھارا ہوں اور پھر سوائے تمھارے کسی اور کا ہو رہوں توبہ توبہ تمھاری عطاؤں کا پروردہ ہوکر کسی غیر کا منہ تکوں توبہ توبہ دل زاران کی تمنا کے ہوتے کسی آسرے پر جیوں توبہ توبہ خلیؔل آدمی کو رہے خوفِ حق بھی نہ ظاہر مصفا، دروں، توبہ توبہ ۔۔۔
مزید