جمعہ , 14 جمادى الآخر 1447 ہجری (مدینہ منورہ)
/ Friday, 05 December,2025


کلام   (47)





کس قدر شان سے آتا ہے مبارک رمضان

کس قدر شان سے آتا ہے مبارک رمضان رونقیں  ساتھ میں لاتا ہے مبارک رمضان رب ہے روزوں کی جزا، پڑھ لو حدیثِ قدسی یہ شرف خوب دلاتا ہے مبارک رمضان  رحمت اور بخششوں کا بن کے سبب، آزادی نارِ دوزخ سے دلاتا ہے مبارک رمضان  ختمِ قرآں بھی تراویح میں ہوتے ہیں بہت حُبِّ قرآں کو بڑھاتا ہے مبارک رمضان  اعتکاف اور تراویح و شبِ قدر کی بھی محفلیں خوب سجاتا ہے مبارک رمضان  فرض کی مثل ملا کرتا ہے نفلوں کا ثواب یہ فضیلت بھی دلاتا ہے مبارک رمضان فرض اعمال کا ستّر گنا ملتا ہے ثواب فضل کا تاج سجاتا ہے مبارک رمضان ماہِ رمضاں کی شبِ قدر میں اُترا قرآن شان کتنی بڑی پاتا ہے مبارک رمضان جھوم اُٹھتی ہے خوشی سے یہ ضیائے طیبہ چاند جب اپنا دکھاتا ہے مبارک رمضان جب گھڑی آتی ہےفرقت کی توسوغاتِ عید جاتے جاتے دیے جاتا ہے مبارک رمضان اے نؔدیم! اِس مہِ ذی شاں کے فضائل ہیں بہت بر۔۔۔

مزید

زیارت حرمین آپ کو مبارک ہو

زیارتِ حرمین آپ کو مبارک ہو! عقیدتِ حرمین آپ کو مبارک ہو!محبّتِ حرمین آپ کو مبارک ہو! صلے میں جس کے ملا حاضری کا پروانہوہ چاہتِ حرمین آپ کو مبارک ہو! بُلا رہے ہیں مقاماتِ کعبہ و روضہعنایتِ حرمین آپ کو مبارک ہو! جو بار بار بُلاوے کا بنتی ہے باعثوہ شفقتِ حرمین آپ کو مبارک ہو! ضیائے طیبہ و مکہ سے ہو منوّر دلیہ نعمتِ حرمین آپ کو مبارک ہو! خلوصِ دل سے دعا گو ہے المؤذّن یوںزیارتِ حرمین آپ کو مبارک ہو! دلِ نؔدیم سے نکلی یہی دعا بہ خدازیارتِ حرمین آپ کو مبارک ہو! نتیجۂ فکر: ندیم احمد نؔدیم نورانیپیر،۸؍ شوّال ۱۴۳۸ھ/ ۳؍ جولائی ۲۰۱۷ء۔۔۔

مزید

بڑی مشکل سے دل کی بے قراری کو قرار آیا

زباں پہ اس لیے صلِّ علیٰ بے اختیار آیا کہ دل میں نام پاک سیّدِ عالی وقار آیا جہاں میں جس گھڑی وہ رحمتِ پروردگار آیا غریبی جی اُٹھی، لیجیے غریبوں کا وہ یار آیا سلاطیں سر بسجدہ ہوں گے جس کے آستانے پر دو عالم کا وہ ملجا اور ماویٰ شہرِیار آیا نہ میں دوزخ سے خائف ہوں نہ میں خواہاں ہوں جنّت کا مجھے تو مل گیا سب کچھ جب آقا کا دیار آیا فدا لاکھوں خرد ایسے جنونِ ہوش پرور پر ادب سے سر بسجدہ جب کوئے یار آیا جہنّم کی تپش سے سینئہ گستاخ بریاں ہے کہ اس کو یارسول اللہ﷐ سنتے ہی بخار آیا جو اپنی معصیت کی لذّتوں میں مست و غافل تھا کھلی اُس وقت آنکھیں جس گھڑی روزِ شمار آیا سرِ محشر عجب ہنگامئہ نفسی بپا دیکھا تلاشِ یار میں ہر اک نفس با حالِ زار آیا سِوا اُن کے کِسے جراءت ہے، یااللہ کہنے کی جو آیا  یارسول اللہ﷐ کی کرتا پُکار آیا پریشاں تھا کہ زیرِ عرش سجدہ میں نظر آئے بڑی مشکل سے دل کی بے قراری۔۔۔

مزید

آدمی کو بھی میسّر نہیں انساں ہونا

ہر مسلمان کو لازم ہے مسلماں ہونا جانِ اسلام ہے سرکار پہ ایماں ہونا پیروی جس کی بنا دیتی ہے محبوبِ خدا اُن کا ہر کام میں بس تابع فرما ہونا آپ ہی سے تو ہوئی آدمیّت کی تکمیل شرف انساں کا ہے وابستۂ داماں ہونا سرورِ دین کی غلامی نہ ہو جب تک حاصل ”آدمی کو بھی میسّر نہیں انساں ہونا‘‘ اُن کے ہی نور سے پیدا ہے جہاں پھر اُن سے غیر مُمکن ہے کسی چیز کا پنہاں ہونا راستہ صدق و سعادت کا بتا دیتا ہے دل میں اخلاصِ نیّت ، ہاتھ میں قرآں ہونا یاد دل میں رہے اور اسمِ مبارک لب پر منزلِ قبر کا مشکل نہیں آساں ہونا یا نبی کہتے رہو ، پُل سے گزرتے جاؤ رَبِّ سَلِّم کی صدا ہے، نہ پریشاں ہونا زندگی، موت ، سبھی وقت وہ کام آئینگے اُن سے پھِر کر نہ کہیں حشر میں حیراں ہونا ہے شفاعت پہ نظر، گر چہ گنہگار ہیں ہم عاصیوں تم نہ کبھی اس سے ہراساں ہونا ہوتی ہے مظہرِ اخلاص، ہر اِک قربانی بہ دلِ صدق و۔۔۔

مزید

ایک سے سو دئیے جلیں سب کی چمک الگ الگ

نوُرِ حُضور سے بنے، اَرض و فلک الگ الگ جِنّ و بشر جُدا جُدا، حور و مَلَک الگ الگ اصل انہی کی ذات ہے، جملہ نبی طفیل ہیں ایک سے سو دئیے جلیں سب کی چمک الگ الگ شمس و قمر کی یہ جِلا، عقل و بصر میں یہ ضیاء سب میں وہ ایک نور ہے، سب کی جھلک الگ الگ باغِ جہاں کی ہر کلی، اُن کے ہی فیض سے  کِھلی رنگ ہر ایک کا ہے جُدا، سب کی مہک الگ الگ ممکن و مظہرِ  وجوب، حادث و پَر توِ قِدَمْ چاروں ہی رنگ ایک میں ، جیسے دھنک الگ الگ فوقِ کمالِ عبدیّت، تحت ظِلالِ حقیقت رہتی ہے آنکھ درمیاں، دونوں پَلَک الگ الگ فرشِ زمیں پہ کیوں رہے، عرشِ بریں پہ کیوں گئے چاندنی اُن کے فیض کی، جائے چنک الگ الگ نائبِ غوث و مصطفٰیﷺ، عبد السلام اور رضا بُرہاںؔ تو اختیار کر، دونوں جھلک الگ الگ۔۔۔

مزید

ہے ایسی کون سی نعمت جو نہیں اس آستانے میں

ہُوا نورِ نبوّت جلوہ گر ایسے زمانے میں کہ ظلمت کُفر کی چھائی ہوئی تھی ہر گھرانے میں موحّد کوئی بھی اللہ اکبر کہہ نہ سکتا تھا ہر اِک مشرک فنا تھا، لات و عِزّیٰ کے منانے میں ہوئی شمعِ رسالت جب منور نورِ وحدت سے ضیاء ایمان کی جا پہنچی  ہر اِک کفر خانے میں جہاں کا ذرّہ ذرّہ گونج اُُٹھا اللہ اکبر سے وہ پھیلی روشنی توحید کی سارے زمانے میں نہ بھٹکو در بدر اس سایۂ رحمت  میں آجاؤ ہے  ایسی کون سی نعمت جو نہیں اس آستانے میں انہی کے پرتوِ انوار وحدت اور رحمت سے تامّل کیا؟ تجلّی گاہ، دل اپنا بنانے میں ثبات و استقامت ہی ہے سرمایہ سعادت کا یہی ہے بے بہا گوہر، محبت کے خزانے میں شریعت پر استقامت، مقصد اپنی زندگی کا ہو یہی بُرہانؔ ہے اِک مرحلہ آنے میں، جانے میں۔۔۔

مزید

بجز محبوب رب ہم کو محبت غیر کی کیوں ہو

بجز محبوبِ رب ہم کو محبت غیر کی کیوں ہو جب اُن کے ہو چکے پھر ہم کو حاجت غیر کی کیوں ہو؟ ہم اُن کے وہ ہمارے، روزِ محشر سلطنت اُن کی جو اُن کا ہے وہ اپنا ہے، تو جنّت غیر کی کیوں ہو؟ جنہیں حاصل ہُوا اعزاز، کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّتْ کا ہدایت کے لیے اُن کی سماجت غیر سے کیوں ہو؟ زمانہ سارا پل رہا ہے جب اُن کے صدقے میں تو اَب اُن کے سَوا بُرہانؔ کو نسبت غیر کی کیوں ہو؟۔۔۔

مزید

کرم ہے تمہارا عنایت تمہاری

کرم ہے تمہارا عنایت تمہاری دو عالم پہ بالا ہے امّت تمہاری شہیدٌ علیٰ النّاس اُمّت تمہاری وَلٰکِنْ کَفَانَا شہادت تمہاری نہ پایا کسی نے نہ پائے گا کوئی یہ رُتبہ تمہارا یہ عزّت تمہاری اسے پھر جہنّم سے کیا ہو علاقہ ہے جس دل میں سرکار اُلفت تمہاری سبھی چاہتے ہیں وسیلہ تمہارا بھلا کس کو چھوڑے شفاعت تمہاری اُنہیں بے کَسی میں جس نے پُکارا بڑھی، کھولے آغوش رحمت تمہاری عنایت تو اعدا پہ بھی ہو رہی ہے غلاموں کو کیا چھوڑے رافت تمہاری اگرچہ معاصی میں سرشار ہیں ہم مگر ہے تو آخر شفاعت تمہاری کرو خادمِ شرع بُرہاںؔ کو اپنے کہ خدمت خدا کی ہے خدمت تمہاری طریقہ کرو اپنے آباء کا روشن اسی میں ہے بُرہانؔ عزّت تمہاری۔۔۔

مزید

ہو میری آنکھ سوئے پیمبر لگی ہوئی

فرقت کی آگ ہے مرے دل پر لگی ہوئی کیوں کر دکھاؤں تمہیں، اندر لگی ہوئی تم کو عطا ہوئے ہیں علومِ ازل ابد تم جانتے ہو کیا ہے اور کیوں کر لگی ہوئی کوئی چلے بہشت میں، دوزخ میں کوئی جائے ہو میری آنکھ سوئے پیمبر لگی ہوئی فرماتے ہونگے امّتِ عاصی سے بار بار ’’دوڑو سبیل ہے، لبِ کوثر لگی ہوئی‘‘ اے دل اگر زیارتِ احمدﷺ نصیب ہو بُجھ جائے پھر تو سینے کے اندر لگی ہوئی پیارے تری عُلُوِّ مراتب کی تیز دھار برچھی وہابیوں کے جگر پر لگی ہوئی بُرہانؔ تھام دامنِ احمد رضا کو تُو ہے اس کی ڈور سوئے پیمبر لگی ہوئی۔۔۔

مزید

گیسوئے ہستی پریشاں کل بھی تھا اور آج بھی

روضۂ اطہر کا ارماں کل بھی تھا اور آج بھی عاصیوں بخشش کا ساماں، کل بھی تھا اور آج بھی مثل میثاق ربویّت ازل سے تا ابد عظمتِ احمدﷺ کا پیماں، کل بھی تھا اور آج بھی ابتداء عالم کی جس کے نُورِ اقدس سے ہوئی نُور پاک ان کا درخشاں، کل بھی تھا اور آج بھی رحمت للعالمیں فرما کے واضح کردیا سارا عالم زیرِ فرما، کل بھی تھا اور آج بھی ظلِّ انوار احمدﷺ کی ضیائیں واہ واہ! ذرّہ ذرّہ جن سے تاباں، کل بھی تھا اور آج بھی کہہ کے مَنَّ اللہ ہم پر نعمتیں کردیں تمام دائمی اکرام منّاں، کل بھی تھا اور آج بھی دینِ مرضی، حبِّ حق، فتح و شفاعت یومِ حشر رحمتِ عالم کا احساں، کل بھی تھا اور آج بھی یادِ رب کے اور ذکرِ رب کے ساتھ، اُن کا ذکر بھی مومنوں کا عین ایماں، کل بھی تھا اور آج بھی دیکھ لی معراج میں، قدرت بشر کی دیکھ لی ہر مسلماں اُس پہ نازاں، کل بھی تھا اور آج بھی فرض ہر اطاعت، عبادت، ذکر  میں، ۔۔۔

مزید

تیری گلی کا منگتا بے نان رہ نہ جائے

آقا تمہاری ذات کا دھیان رہ نہ جائے مدّت کا ایک دل میں ارماں رہ نہ جائے ہوکر تِرے بھکاری کیوں جائیں غیر کے دَر اَوروں کا ہم پہ کوئی احسان نہ جائے ہے دعوتِ شفاعت محشر میں عاصیوں کو محروم اس سے کوئی مہمان رہ نہ جائے بحرِ کرم سے آقا سارے گناہ دھو دو ہم عاصیوں پہ داغِ عصیاں نہ جائے سرکار محشر میں جب بخشائیں عاصیوں کو رکھنا خیال اتنا بُرہان نہ جائے بُرہانؔ کھڑا ہے در پر دامن رضا کا تھامے تیری گلی کا منگتا بے نان نہ جائے۔۔۔

مزید

نور باطن دیکھنے کو قلب روشن چاہیئے

سعئِ قرب حق میں گر فوزاً عظیماً چاہیئے اتباعِ سید ِ اکرم، یقیناً چاہیئے کلمہ گوئی تو فقط اسلام کو کافی نہیں حبِّ احمد دل سے قولاً اور فعلاً چاہیئے تجھ کو اے زاہد مبارک قصرِ جنّت کا خیال بس ہمیں سرکار کے سائے میں مسکن چاہیئے آرزوئے اَحْسَنُ اللہ لَہٗ رِزْقاً تو ہے جذبۂ اخلاص بھی بروجہہِ احسن چاہیئے یوں تو ہر اِک تن، تن آسانی کا جویا ہے مگر راہِ مولا میں جو کام آجائے، وہ تن چاہیئے اُلفتِ سرکار کا دعویٰ تو کرتے ہیں سبھی کرسے سب قربان وہ صدّیق کا من چاہیئے دولت دنیا کبھی دنیا ہی میں بےکار ہے قبر میں اور حشر میں کام آئے وہ دھن چاہیئے جس کو دیکھو حشر کی شدّت سے بچنے کے لیے کہہ رہا ہے اُن کی رحمت ، اُن کا دامن چاہیئے سایۂ دامانِ رحمت یوں تو مل سکتا نہیں سنّیت کا خوب گہرا رنگ و روغن چاہیئے ہے جہنّم ’’ذَاتَ لَھَبٍ‘‘ کی صدا ’’ھَلْ مِنْ مَّزِیْد۔۔۔

مزید