منگل , 25 جمادى الآخر 1447 ہجری (مدینہ منورہ)
/ Tuesday, 16 December,2025


پارۂ دل   (94)





دل کی سنسنان فضاؤں کو بھی بس جانے دو

دل کی سنسنان فضاؤں کو بھی بس جانے دو آرہے ہیں وہ مرے دل کی طرف آنے دو ناصحو! کوچۂ جاناں میں مجھے جانے دو ناوک نرگس میگوں کا مزہ پانے دو یہ بھی ہیں چہرۂ پر نور کے پروانے دو دوش پرکا کل خمدار کو بل کھانے دو ان کی آنکھوں کو نہ تعبیر کروں آنکھوں سے سچ جو پوچھو تو نظر آتے ہیں میخانے دو جرأت ضبط بہت کی ترے آگے لیکن خودبخود ہی چھلک اٹھے مرے پیمانے دو اک ترے ظلم کا اور ایک تباہی کا مری میرے دل میں تو نہاں ہیں یہی افسانے دو خودہی ہوجائے گی بے نام و نشاں تاریکی ٹھہرو پردے کو ذرا رخ سے تو سرکانے دو اس سے بھی آتی ہے خوشبوئے محبت اخؔتر دل پہ ڈھائیں وہ ستم جتنا انھیں ڈھانے دو ۔۔۔

مزید

یہ مانا کہ شایانِ قاتل نہیں ہوں

یہ مانا کہ شایانِ قاتل نہیں ہوں فریب محبت سے غافل نہیں ہوں سر حشر مجھ پر نظر ایسی ڈالی یہ کہنا پڑا ان کا بسمل نہیں ہوں جو دونیم ہوجائے اے تیغ ابرو لئے اپنے پہلو میں وہ دل نہیں ہوں بھٹکنے میں ہے لطف ائے خضر ورنہ میں ناواقف راہ منزل نہیں ہوں ہے یہ ناروا مذہب عاشقی میں ستم سہہ کے کہنا کہ خوش دل نہیں ہوں مرے دل کی آہوں کا اخؔتر کرم ہے کہ منت کشِ شمع محفِل نہیں ہوں ۔۔۔

مزید

چھوڑ دوں گا میں آستانے کو

چھوڑ دوں گا میں آستانے کو سن تو لیجئے مرے فسانے کو عشق کی اصطلاح میں ہمدم موت کہتے ہیں مسکرانے کو آنکھ ہے اشکباریوں کے لئے دل ہے چوٹوں پہ چوٹ کھانے کو آنچ آئے مگر نہ گلشن پر پھونک دو میرے آشیانے کو ان کے حصے میں گروفا ہوتی ہم کہاں جاتے غم اٹھانے کو ہو مبارک مری خودی مجھ کو حسن آیا ہے خود منانے کو دل کی دنیا اجاڑنے والے آج آئے ہیں دل لگانے کو شمع سوزدروں نے اے اخؔتر روشنی بخش دی زمانے کو ۔۔۔

مزید

نہیں کوئی حاجت تری چارہ گر ہے

نہیں کوئی حاجت تری چارہ گر ہے مداوائے غم میرا درد جگر ہے نقاب رُخِ ذرۂ پرور جو اُلٹی زمانے نے سمجھا طلوع سحر ہے نہ پھر کیوں ہو تشہیر راز محبت لو چشم تمنا مری پردہ در ہے وہ کم تر ہے اک کرمِ شب تاب سے بھی جو منت کش روشنیٔ دگر ہے ستارے بھی ذروں سے شرماگئے ہیں نگاہِ محبت بڑی کارگر ہے مرے دل میں ہیں آج وہ جلوہ فرما مرا دل نہیں نور کا ایک گھر ہے ابھی تو کھنکتے نہیں جام و مینا سحر کیسے ہوگی فریب سحر ہے نہ کوشش کرو مجھ سے چھپنے کی ہرگز سمند تصور مرا تیز تر ہے سمجھنے ہی والا نہیں کوئی ہمدم لئے گود میں داستاں چشم تر ہے الہی مجھے عزم محکم عطا کر محبت کے دریا میں پہلا سفر ہے نہ پہلو میں میرے نہ زلفوں میں ان کی خدا جانے کس جا دلِ معتبر ہے لطافت ہے کانٹوں میں بھی ان کے در کے دیار ان کا اخؔتر بہشت نظر ہے زمیں کو بناؤں گا رشکِ فلک میں ستارے چھپائے مری چشم ترہے مجھے مرتے مرتے ملی زندگانی نگاہِ محبت بڑی کا۔۔۔

مزید

جامِ مے کی دست ساقی میں اُدھر جھنکار ہے

جامِ مے کی دست ساقی میں اُدھر جھنکار ہے اور پہلو میں اُچھلتا یاں دل مے خوار ہے گلستاں میں کس لئے جاؤں بنانے آشیاں اب کہاں شاخ گل گلشن میں تاب بار ہے اے مصور!رنگ غم کی کچھ جھلک اس میں نہیں کیا یہی صنعت کا تیری آخری شہکار ہے میں جدھر ہوں اس طرف ہے صرفِ تنہائی مری جس طرف وہ ہیں وہ اک دنیائے گوہر بار ہے دیکھ جا آکر قیامت اے مرے سروِ سہی صرف میں کیا اِک زمانہ طالب دیدار ہے میں تیرے طرزِ تغافل سے نہیں ہوں بدگماں جانِ جاناں بے رخی میں لذت آزار ہے عشق برہم حسن سے اور حسن برہم عشق سے آج اخؔتر عشق میں اور حسن میں پیکار ہے ۔۔۔

مزید

کیوں نہ ہو حسن محو نظارہ

کیوں نہ ہو حسن محو نظارہ آج ہے عشق کی رونمائی ہے ۔۔۔

مزید

پیش نظر بھی آئے تو مستور ہوگئے

پیش نظر بھی آئے تو مستور ہوگئے پوشیدہ گویا جلوے سرطور ہوگئے کہدو کہ میرے سامنے آئیں سنبھل کے وہ پیمانے صبر و شوق کے بھرپور ہوگئے وہ بھی جو ہوسکے نہ خراب شرابِ ناب تیری نگاہِ مست سے مخمور ہوگئے اخؔتر غرور سحر طرازی پہ تھا جنھیں ان سے نظر ملاتے ہی محسور ہوگئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مزید

شبنموں کا نرگس خوابیدہ کیا جانے عروج

شبنموں کا نرگس خوابیدہ کیا جانے عروج خواب سے دیدہ کبھی نمناک ہوسکتا نہیں ۔۔۔

مزید

چمن کا رنگ ہے دورِ خزاں میں

چمن کا رنگ ہے دورِ خزاں میں سکون دل نہاں درد نہاں میں چمک جو گرد کوئے یار میں ہے کہاں وہ بات مہر ضوفشاں میں نہ پوچھو شادمانی باغباں کی لگی ہے آگ میرے آشیاں میں نہ چھیڑو نغمۂ الفت نہ چھیڑو ابھی الجھا ہوں میں دورزماں میں جھکاؤں گا نہیں سر دیکھنا ہے کشِش کتنی ہے ان کے آستاں میں قفس جن سے بنا ہے آج میرا یہی تو تیلیاں تھیں آشیاں میں یہ مانا سن تو لو گے داستاں تم سنا نے کی نہیں طاقت زباں میں بہاریں سرفگندہ نقش پا پر چلے اس شان سے وہ گلستاں میں اگر ہے دیکھنا ان کو تو دیکھو مری آنکھوں کے ان اشک رواں میں گرج سے بجلیوں کی ڈرنے والے نشیمن ہے مرا برق تپاں میں گماں اخؔتر ہوا انکی گلی میں پہنچ آیا ہوں میں باغ جناں میں ۔۔۔

مزید

آج بے سایہ ہیں مالک تھے جو ایوانوں کے

آج بے سایہ ہیں مالک تھے جو ایوانوں کے ان میں جا بیٹھے ہیں فرزند بیا بانوں کے خامشی تیری ہوئی حوصلہ افزائے جنوں سامنے ڈھیر ہیں ٹوٹے ہوئے پیمانوں کے زلف ژولیدۂ محبوب کے بوسے لیتے ہوتے دندان زہے بخت اگر شانوں میں بے حجابانہ ہے کس ہوش رُبا کی آمد جلوۂ شمع سے دل بھر گئے پروانوں کے آمد رشک قمر نازشِ خورشید ہے آج جگمگا اٹھے مقدر ہیں شبستانوں کے سن اے آلام شدائد سے ڈرانے والے عشق تو کھیلتا ہے ساتھ میں طوفانوں کے نظم میخانہ کی اب خیر نہیں ہے ساقی آج دشمن ہوئے دیوانے ہی دیوانوں کے ان کی محفل میں یہ غیروں کی رسائی کیسی ہم نشیں کیا یہی انجام ہیں پیمانوں کے شمع امید فروزاں تھی جہاں سے اخؔتر اسی محفل میں گلے کٹ گئے ارمانوں کے ۔۔۔

مزید

دل کے داغوں کو شرربار کروں یا نہ کروں

دل کے داغوں کو شرربار کروں یا نہ کروں آپ کو یاد پھر اک بار کروں یا نہ کروں محفل شمع نظر آتی ہے سونی سونی شکوۂ روئے پر انوار کروں یا نہ کروں عشق افسانوں میں محدود نہ رہ جائے کہیں اپنے دل کو میں سردار کروں یا نہ کروں بزم میں ان کی اندھیرا ہے الٰہی اندھیر اپنے اشکوں کو ضیابار کروں یا نہ کروں کون سنتا ہے مرے غم کا فسانہ امروز ہمنشیں جرأت گفتار کروں یا نہ کروں دم آخر بھی نہ آئیں وہ یہاں پر شاید آنکھ کو طالب دیدار کروں یا نہ کروں چکھ لیا میں نے مزہ پھول کی رنگینی کا آرزوئے خلش خار کروں یا نہ کروں دیکھا جاتا نہیں انداز غرور اے اخؔتر حسن کے لطف سے انکار کروں یا نہ کروں ۔۔۔

مزید

جب یاد تیری آئی ہے پہلو میں درد بن کے

جب یاد تیری آئی ہے پہلو میں درد بن کے جھونکے برے لگے ہیں پھر نکہت چمن کے پھر کیسے مسکرائیں یہ ننھی ننھی کلیاں جب باغباں ہے گلچیں حق میں گل چمن کے اس وقت کیا کریں گے ہم جبکہ اے ستمگر یادیں تمہاری آئیں ہر جوڑ سے بدن کے کھاتا رہا میں دھوکا آزادیوں کا ہمدم آئے قفس میں جھونکے جب جب مرے چمن کے کوئی ادا بھی ہوگی اب کارگر نہ مجھ پر میں نے سمجھ لئے ہیں انداز پُرفتن کے اخؔتر تری غزل میں تابائی ہنر ہے تم بھی ہو اک ستارے آفاق اہل فن کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مزید