ہفتہ , 29 جمادى الآخر 1447 ہجری (مدینہ منورہ)
/ Saturday, 20 December,2025

(سیدنا) حریث (رضی اللہ عنہ)

  ابن زید بن عبد ربہ بن ثعلبہ بن زید۔ بنی جشم بن حارث بن خزرج سے ہیں۔ غزوہ بدر میں اپنے بھائی عبداللہ بن زید کے ستھ شریک تھے عبداللہ بن زید وہی ہیں جنھوںنے اذان کو خواب میں دیکھا تھا اور باتفاق سب لوگوں کے احد میں بھی شریک تھے۔ ابوعمر نے ان کا نسب ایسا ہی بیان کیا ہے اور ابونعیم اور ابو موسی نے ان کا نسب اس طرح لکھا ہے حریث بن زید بن ثعلبہ بن عبدربہ ابن زید بن حارث بن خزرج خزارجی میں کہتا ہوں کہ انھیں دونوں کا ول حق ہے یہ حریث بن جشم بن حارث بن خزرج سے نہیں ہیں بلکہ بنی زید بن حارث سے ہیں ابن اسحاق نے بھی ان کا نسب اسی طرح بیان کیا ہے اور کہا ہے حریث بن زید بن ثعلبہ بن عبدربہ بن زید ہشام کلبی نے بھی ان کی موافقت کی ہے واللہ اعلم۔ ان کا تذکرہ ابو نعیم اور ابو عمر اور ابو موسی نے لکھا ہے۔   (اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)۔۔۔

مزید

(سیدنا) حریث (رضی اللہ عنہ)

  ابن حسان شیبانی۔ بعض لوگ کہتے ہیں ان کا نام حارث ہے حارث کے نام میں ان کا حال گذر چکا ہے قیلہ منبت مخرمہ کے شوہر تھے۔ بکر بن وائل کے وفد تھیلہا ہم ان کے ذکر کو طول نہیں دیتے ان کا نام حارث ہی صحیح ہے اس مقام میں ان کا ذکر ابو نعیم اور ابو عمر اور ابو موسی نے یہاں لکھا ہے اور باقی سب لوگوں نے حارث کے نام میں ان کا ذکر لکھا ہے۔ (اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)۔۔۔

مزید

(سیدنا) حرملہ (رضی اللہ عنہ)

  ابن ہوذہ بن خالد بن ربیعہ بن عمرو بن عامر ضحیا نامی ایک گھوڑا ان کے پاس تھا اس پر سوار ہوا کرتے تھے ربیعہ بن عامر بن صعصعہ کے خاندانس ے ہیں۔ عمرو بن عامر بھائی ہیں بکاء کے بکاء کا نام ربیعہ ابن عمر ہے۔ نبی ﷺ کے حضور میں یہ اور ان کے بھائی خالد آئے تھے اور دونوں اسلام لائے تھے حضرت ان کے اسلام سے خوش ہوئے ان کا شمار (پہلے) مولفۃ القلوب میں تھا جب یہ دونوں اسلام لائے تو رسول خدا  ﷺ نے قبیلہ خزاعہ کو ان کے اسلام کی بشارت لکھی تھی۔ ان کا تذکرہ ابو عمر اور ابو موسی نے لکھا ہے۔ (اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)۔۔۔

مزید

(سیدنا) حرملہ (رضی اللہ عنہ)

  ابن مریط۔ سیف نے ان کو کتاب الفتوح میں ذکر یا ہے۔ انھوںنے کہا ہے ہ حرلہ بن مربطہ نیکوکار صحابہ میں تھے ان کو طبری نے ان لوگوں میں ذکر یا ہے جو عتبہ بن غزوان کے ستھ بصرہ میں تھے ان کو عتبہ نے اہل فارس سے لڑنے کے لئے میسان اور دست میسان کی طرف بھیجا تھا جو خوزستان کا علاقہ ہے۔ صحابی ہیں اور انھوں نے نبی ﷺ کی طرف ہجرت بھی کی تھی۔ عتبہ نے ان کے ہمراہ سلمی بن قین کو بھی بھیجا تھا وہ بھی مہاجرین میں سے تھے چار ہزار آدمی بنی تمیم اور رباب کے ان کے ہمراہ تھے یہ لوگ مقام جعرانہ اور نعمان میں اترے یہ دونوں مقامات نواحی عراق میں ہیں انھیں کے مقابل ین نوشجان اور قیومان دو مقام ہیں مقام درکا میں اہل فارس جمع ہوئے تھے۔ (اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)۔۔۔

مزید

(سیدنا) حرملہ (رضی اللہ عنہ)

  مدلجی۔ ان کا شمار صحابہ میں ہے۔ ہمیں حافظ ابوموسی یعنی محمد بن ابی بکر مدینہ نے اجازۃ خبر دی وہ کہت تھے ہمیں ابوبکر یعنی محمدبن عبید اللہ بن حارث نے کتابۃ خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں ابو احمد عطار مقرینے خبر دی وہ کہتے تھے ہم سے ابو حفص یعنی عمر ہیں شاہین نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہمیں عبداللہ بن محمد نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں ابن سعد نے خبر دی وہ کہتے تھے میں حرملہ مدلجی یعنی ابو عبداللہ نے خبر دی کہ وہ منبع میں رہتے تھے انھوں نے نبی ﷺ سے سنا ہے۔ اور اآپ سے روایت کی ہے بعض لوگوں کا بیان ہے کہ آپ کے ساتھ کسی سفر میں بھی رہے ہیں۔ ان سے ان کے بیٹے عبداللہ نے بھی روایت کی ہے ہک یہ کہتے تھے میں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ہم لوگ ہجرت کو دوست رکھتے ہیں مگر ہمارا ملک ہمارے لئے بہت موافق ہے حضرت نے فرمایا کہ اللہ تمہارے کسی عمل کو ناقص نہ کرے گا چاہے تو جہاں رہو ان کا تذرہ ابو عمر اور ابو موسی نے۔۔۔

مزید

(سیدنا) حرملہ (رضی اللہ عنہ)

  ابن عمرو سنتہ اسلمی۔ والد ہیں عبد الرحمن بن حرملہ کے منبع میں رہتے تھے۔ عبد الرحمن بن حرملہ نے یحیی بن ہند بن حارثہ اسلی سے انھوں نے حرملہ بن عمرو سے روایت کی ہے کہ انھوں نے کہا میں اپنے چچا سنان بن سنہ کے ساتھ تھا میں نے رسول خدا ﷺ کو خطبہ پڑھتے دیکھا تو میں نے اپنے چچا سے پوچھا کہ آپ کیا فرما رہے ہیں انھوں نے کہا فرماتے کہ کنکریوں سے رمی جمار کرو اس حدیث کو عبدالرحمن بن حرملہ نے بہت لوگوں سے روایت کیا ہے منجملہ ان کے وہیب بن درداء اور در اور دی اور یحیی بن ایوب ہیں۔ یحیی بن ہند کے والد ہند بھی صحابی میں ہم ان کو ان کے مقام میں ان شاء اللہ تعالی زکر کریں گے۔ (اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)۔۔۔

مزید

(سیدنا) حرملہ (رضی اللہ عنہ)

  ابن عبداللہ بن ایاس۔ بعض لوگ ان کو حرملہ ابن ایاس کہتے ہیں۔ تمیمی عنبری ہیں ان کا شمار اہل بصرہ میں ہے۔ ان کی حدیث صفیہ اور دحیہ دختران علیبہ سے مروی ہے وہ اپنے والد علیبہ سے وہ ان کے دادا سے روایت کرتی ہیں اور ضرغامہ بن علیبہ نے بھی ان سے رویت کی ہے۔ ہمیں عبداللہ بن احمد بن عبد القاہر یعنی ابو الفضل نے اپنی سند سے ابودائود طیاسی تک خبر دی وہ کہتے تھے ہم سے قرہ بن خالد نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہم سے ضرغامہ بن علیبہ بن حرملہ عنبری نے اپنے والد علیبہ سے انھوں نے ان کے دادا حرملہ سے رویت کر کے بیان کیا کہ وہ کہتے تھے میں قبیلہ کے کچھ سواروں کے ہمراہ رول خدا ﷺ کی خدمت میں گیا حضرت نے ہمیں صبح کی نماز پڑھائی وہ ایسا وقت تھا کہ تاریکی کے سبب سے میں اپنے پاس والے آدمی کو نہ پہچان سکتا تھا پھر جب میں نے لوٹنے کا ارادہ کیا تو عرض کیا کہ یارسول اللہ مجھے کچھ وصیت کیجئے حضرت نے فرمایا کہ خدا سے۔۔۔

مزید

(سیدنا) حرملہ (رضی اللہ عنہ)

  ابن زید انصاری۔ بنی حارثہ میں سے ایک شخص ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر نے روایت کی ہے وہ کہتے تھے کہ میں رسول خدا ﷺ کے حضور میں بیٹھا ہوا تھا کہ حرملہ بن زید انصاری آئے جو بنی حارثہ میں سے ایک شخص تھے وہ حضرت کے سامنے بیٹھ گئے اور عرض کیا کہ یارسول اللہ ایمان تو اس مقام پر ہے اور اپنے ہاتھ سے اپنی زبان کی طرف اشارہ کیا اور نفاق اس جگہ ہے اور اپنے ہاتھ سے اپنے سینے کی طرف اشارہ یا اور ہم اللہ کا ذکر بہت کم کرتے ہیں پس رسول خدا ﷺ  چپ رہے حرملہ نے اس کو کئی بر کہا پس رسول خداﷺ نے حرملہ کی زبان پکڑ لی اور کہا کہ اے اللہ حرملہ کو سچی زبان اور شکر کرنے والا دل عنایت کر اور ان کو میری محبت اور میرے محبت کرنے والوںکی محبت دے اور ان کا انجام بخیر کر حرملہ نے آپ سے عرض کیا کہ یارسول اللہ میرے کچھ بھائی منافق ہیں میں ان سب کا سردار تھا کیا میں ان کے نام آپ کو بتا دوں رسول خدا ﷺ نے فرمایاکہ جو ۔۔۔

مزید

(سیدنا) حرملہ (رضی اللہ عنہ)

  ابن ایاس۔ دادا ہیں صفیہ اور دحیہ دختران علیہہ کے۔ بغوی نے ان کے اور حرملہ بن عبداللہ جدضر غامہ کے درمیان میں فرق بیان کیا ہے اور حافظ ابو نعیم وغیرہ نے ان دونوں کو ایک کر دیا ہے اور سب لوگوں نے ان دونوں کا ذکر لکھا ہے ابو احمد عکسری نے ابن مندہ اور ابو نعیم اور ابو عمر کی طرح لکھاہے حرملہ بن ایاس عنبری اور بعض لوگ ان کو حرملہ بن عبداللہ ابن ایاس کہتے ہیں بنی مجفر بن کعب سے ہیں جو قبیلہ عنبر کی ایک شاخ ہے۔ اور یہی صحیح ہے۔ (اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)۔۔۔

مزید

(سیدنا) حرقوص (رضی اللہ عنہ)

  ابن زہیر سعدی۔ طبری نے ان کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ ہر مزان فارسی والی خوزستان کافر ہوگیا اور اس نے اپنے یہاں کا جزیہ موقوف کر دیا اور قوم کرو سے مد لی اس کی جرعت بڑھ گئی پس سلمی نے اور ان کے ساتھ والوں نے یہ خبر عتبہ بن غزوان کو لکھ بھیجی عتبہ نے حضرت عمر بن خطاب و لکھ بھیجا حضرت عمر نے عتبہ کو ہرمزان سے لڑنے کا حکم دیا اور حرقوص بن زہیر سعدی کو جو رسول خدا ﷺ کے صحابی بھی تھے مسلمانوںکی مدد کے لئے بھیج دیا اور انھیں سردار جنگ بنایا پس مسلمانوں سے اور ہرمزان سے جنگ ہوئی ہرمزان کو شکست ہوئی حرقوص نے اہواز کے بازاروں کو فتح کر لیا اور وہیں فزکش ہوئے ہرمزان کی لڑائی میں انھوں نے بڑا کار نمایاں کیا۔ حرقوس حضرت علی مرتضی کے زمانے تک باقی تھے اور ان کے ستھ جنگ صفین میں شریک تھے۔ پھر خوارج میں سے ہوگئے اور ان سب سے زیادہ حضرت علی بن ابی طالب کے لئے سخت تھے جب حضرت علی نے خوارج سے قتال کی۔۔۔

مزید