ابو بکرطرابلسی: شام کے ملک میں قاریوں کے شیخ اور عالمِ فنونِ کثیرہ، متدین،قانع،گونشہ نشین تھے۔دمشق میں دروازہ شاغور کے اندر امامت مسجد سیاغوشیہ کی آپ کو تفویض تھی تمام قراء تیں ابراہیم بن محمد عمادی المعروف بہ ابن کسبائی سے اخذ کیں اور دیگر علوم وہاں کے علماء وفضلاء سے پڑھے اور ماہ شعبان ۱۰۲۶ھ میں وفات پائی اور اب الصغیر میں دفن کیے گئے ’’رافع رایت دین‘‘ تاریخ وفات ہے۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔
مزید
شیخ برہان الدین محمود بن ابی الخیر السعد بلخی: سلطان غیاث الدین بلین کے وقت میں اکابر علماء فضلاء میں سے فقیہ محدث جامع علوم عقلیہ ونقلیہ واقف فنون رسمیہ و عرفیہ صاحب شریعت و طریقت تھے اور شعر عارفانہ کہتے تھے،آپ نے مشارق الانوار کو اس کے مصنف سے سند کیا۔آپ کا قول تھا کہ میں چھہ سات سال کی عمر میں اپنے باپ کے ہمراہ استہ میں چلا جاتا تھا کہ سامنے سے حضرت مولانا برہان الدین مر غینانی صاحب ہدایہ کی سواری آئی اور میں ہجوم میں اپنے باپ سے جدا ہو گیا۔جب مولانا ممدوح کو سورای نزدیک آئی تو میں نے آگے ہو کر سلام کیا۔آپ نے میری طرف دیکھ کر فرمایا کہ خدا تعالیٰ مجھ کو ایسا کہلاتا ہے کہ یہ لڑکا اپنے زمانہ میں علامہ ہوگا۔میں نے سخن اپنے کانوں سے سُنا اور آپ کے ہمر کاب چل پڑا۔پھر ممدوح نے فرمایا کہ خدا مجھ کو یہ کہلواتا ہے کہ یہ لڑکا ایسا ہوگا کہ بادشاہ اس کے دروازہ پر حاضر ہوں گے۔آپ نے بار بار فر۔۔۔
مزید
محمد بن محمد بن محمد ابو الفضل برہان نسفی: اپنے زمانہ کے امام فاضل، مفسر، محدث فقیہ اصولی،متکلم تھے۔۶۰۰ھ کے قریب پیدا ہوئے۔علم خلاف میں ایک مقدمہ تصنیف کیا اور علم کلام میں عقائد نسفی نام ایک کتاب لکھی جس کی سعد الدین تفتازانی وغیرہ نے شرحیں لکھیں اور امام فخر الدین رازی کی تفسیر کبیر کو ملحض کیا اور ماہ ذی الحجہ ۶۸۶ھ[1] میں وفات پائی اور امام ابو حنیفہ کے مشہد کے پاس مدفون ہوئے۔’’امام ثقہ‘‘ تاریخ وفات ہے۔وہ جو صاحب کشف الظنون نے عقائد نسفی کو ابی حفص عمر نسفی کی طرف منسوب کیا ہے۔یہ ان کے قلب کا زلہ ہے۔ 1۔ ۲۸۴ھ ’’دستور الاعلام‘‘ (مرتب) حدائق الحنفیہ۔۔۔
مزید
اخوند ملّا محمد کمال الدین[1] اخوند ملّا محمد کمال الدین برادر مولانا محمد جمال الدین: بڑے عالم فاضل شیخ کامل جلال دقائق کشاف حقائق جامع علوم نقلیہ و عقلیہ تھے جس طرح آپ کے بھائی کی جہت تقویٰ کی طرف راجح تھی،اسی طرح آپ کو نسبت علمی غالب تھی اور باوجود اس کے آپ مجموعۂ علم و عمل و زہد و تقویٰ تھے مدت تک سیالکوٹ و لاہور میں مسند تدریس و تلقین پر متمکن رہ کر دور نزدیک کے لوگوں کو علوم ظاہری و باطنی سے مستفیض فرماتے رہے چنانچہ شیخ احمد مجد الف ثانی اور مولانا عبد الحکیم سیالکوٹی نے علوم ظاہری آپ سے ہی حاصل کر کے کمالیت حاصل کی۔وفات آپ کی ۱۰۱۷ھ میں شہر لاہور میں واقع ہوئی لیکن قبر آپ کی فی زماننا مفقود الخبر ہے۔ ’’حدیقۂ فیض‘‘ تاریخ وفات ہے۔ 1۔ قاضی کمال بن موسیٰ کاشمیری ’’نزہۃ ا۔۔۔
مزید
سید صبغۃ اللہ بروجی:[1] بڑے عالم فاضل،جامع علوم نقلیہ و عقلیہ تھے، قصبۂ بروج میں جو گجرات کے شہروں میں سے ہے،پیدا ہوئے۔علوم شیخ وجیہ الدین گجراتی سے اخذ کیے،چندے تدریس و ارشاد میں مشتغل رہ کر حرمین وغیرہ کو تشریف لے گئے جہاں سے واپس بروج میں آئے پھر مالودہ کو گئے اور چندے احمد نگر میں سلطان برہان الملک کے پاس اقامت کی پھر حرمین کے ارادہ سے بیجاپور میں پہنچے جہاں سلطان ابراہیم نے آپ کی بری خدمت کی اور آپ کے سفر کا اسباب تیار کردیا اور آپ مدینہ منورہ میں داخل ہوکر جبلِ احد میں ساکن ہوئے جہاں آپ نے جواہر خمسہ کو معرب کیا جس پر آپ کے شاگرد شیخ احمد شناوی نے حاشیہ لکھا اور شیخ محمد عقلیہ المکی نے کتاب لسان الزمان میں آپ کے حالات نہایت عمدہ لکھے۔وفات آپ کی مدینہ میں ۱۰۱۵ھ میں ہوئی۔’’شمع نور سعادت‘&lsquo۔۔۔
مزید
علی بن سلطان محمد ہروی نزیل مکہ المعروف بہ قاری: نور الدین لقب تھا۔ اپنے زمانہ کے وحید العصر،فرید الدہر،محقق،مدقق،منصف مزاج،محدث، فقیہ، جامع علوم عقلیہ و نقلیہ اور متضلع سنتِ نبویہ جماہیر اعلام اور مشاہیر اولی الحفظ والا فہام میں سے تھے خصوصاً آپ کو تحقیقی فقہ وحدیث اور دریافت علوم کلام و معقول میں ید طولیٰ حاسل تھا اور تجریر عبارت عربی میں ایسی طرز خاص رکھتے تھے کہ کئی ایک جزو ایک وضع پر مسجع و مقفی لکھ جاتے تھے۔ ہرات میں پیدا ہوئے اور مکہ معظمہ میں آکر خاتمۃ المحققین احمد بن حجر ہیثمی مکی اور ابی الحسن بکری اور عبداللہ سندی اور قطب الدین[1] مکی سے علم پڑھا اور مشہور زمانہ ہوکر سَن ہزار کے سرے پر درجۂ مجددیت کو پہنچے ۔آپ کے اعتراض امام مالک پر مسئلۂ ارسا۔۔۔
مزید
عبد الحلیم بن محمد المشہور بہ اخی زادہ: دولتِ عثمانیہ کے علمائے کبار میں سے علم و فضل میں یگانہ تھے،خدا نے آپ کو ذہ نعالی اور ادراک صحیح عطا فرمایا تھا، تصنیفات بھی بہت کیں جن میں سے شرح ہدایہ اور تعلیقات شرح مفتاح اور در روغرر اور الاشباہ والنظائر وغیرہ مشہور و معروف ہیں۔وفات آپ کی ۱۰۱۳ھ میں ہوئی۔ ’’فکر مجلس‘‘ تاریخ وفات ہے۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔
مزید
خواجہ محمد باقی نقشبندی دہلوی: اپنے وقت کے امام و مقتدائے زمانہ،جامع کمالات ظاہری وباطنی،زاہد متقی،موصوف باوصافِ کریمہ تھے،اوائل میں کامل سے سمر قند میں گئے اوربعد تحصیل علوم فقہ وحدیث اور تفسیر وغیرہ کے خواجہ مگنگی خلیفہ خواجہ عبدی اللہ احرار کے مرید ہوئے اور بعد تحصیل و تکمیل کمالات باطنی کے خرقہ خلافت حاسل کر کے دہلی میں آئے اور تدریس و تلقین خلائق میں مصروف ہوکر صاحب تصانیف و توالیف ہوئے،آپ نہایت کم گود کم خورو کم خواب تھے اور بعد نماز عشاء کے نماز تہجد تک ہر روز دو مرتبہ قرآن شریف کا ختم کرتے تھے اور بعد نماز تہجد کے فجر تک ۲۱ مرتبہ سورہ یاسین پڑھا کرتے تھے،جب فجر ہوتی تو آپ یہ فرماتے کہ یا الٰہی رات کو کیا ہوا کہ اس جلدی سے گذر گئی اور اس نے کچھ توقف کیا۔ ایک دن ۔۔۔
مزید
مفتی زکریا بن بہرام:اصل میں شہر انقرہ کے رہنے والے تھے جو قسطنطنیہ میں آکر متوطن ہوئے اور وہیں عرب زادہ عبد الباقی وغیرہ سے مختلف علوم و فنون حاصل کر کے جامع علومِ نقلیہ و عقلیہ ہوئے،حلب وغیرہ کی قضاء آپ کو دی گئی۔ عنایہ اور شرح وقایہ پر حواشی تصنیف کیے اور ۱۰۱۰ھ میں وفات پائی۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔
مزید