احمد بن جمال الدین ابی المحامد محمود بن احمد بن عبد السعید بن عثمان[1] بن نصر عبد الملک بخاری المعروف با لحصیری: بخارا میں ماہ رجب ۵۴۶ھ میں پیدا ہوئے۔ نظام الدین لقب تھا،اپنے زمانہ کے امام فاضل،فقیہ اجل تھے یہاں تک کہ حنفیوں میں سے آپ کے وقت میں کوئی آپ سے ہمسری نہ کر سکتا تھا۔فقہ اجل تھے یہاں تک کہ حنفیوں میں سے آپ کے وقت میں کوئی آپ سے ہمسری نہ کر سکتا تھا۔فقہ اپنے باپ جمال الدین محمود حصیری سے پڑھی۔مدت تک مدرسہ نوریہ میں تدریس پر رہے اور ۶۹۸ھ کو دمشق میں وفا ت پائی۔’’علامۂ محدث‘‘ تاریخ وفات ہے۔ 1۔ احمد بن جمال الدین ابی المھامد محمود بن احمد بن عبد السید بن عثمان ہمام الدین لقب ’’جواہر المضیۃ‘‘(مرتب) حدائق الحنفیہ۔۔۔
مزید
خواجہ محمد اسلم[1] قاضی محمد اسلم والد میر زاہد: عالمِ اجل،فقیہ اکمل،جامع علومِ عقلیہ و نقلیہ تھے،ہرات میں پیدا ہوئے اور طلبِ علم کی غرض سے لاہور میں تشریف لائے ار شیخ بہلول سے جو علمائے کبار میں سے لاہور میں تھے،علوم حاصل کیے،پھر آگرہ میں سلطان جہانگیر کے پاس تشریف لے گئے۔چونکہ آپ مولانا کلاں محدث کے رشتہ داروں میں سے تھے جو بادشاہ کے استاد تھے اس لیے آپ کی بڑی عزت ہوئی اور کابل کی قضاء آپ کے سپرد کی گئی جس کو آپ نے بڑی دیانتداریکی شہرت سے انجام دیا پھر آپ عسکر کے قاضی ہوئے۔جب شاہ جہان تخت نشین ہوا تو اس نے علاوہ قضاء کے ہزاریکا منصب بھی آپ کو دیا اور آپ تیس سال تک نہایت دیانت سےقضاء پر مامور اور سلطانی عنایات کے موردر ہے یہاں تک کہ بادشاہ نے آپ کو میزان[2] میں تُلوایا اور ساڑھے چھ ہزار روپیہ آپ کو دیا۔وفات آپ کی ۱۔۔۔
مزید
مولانا حیدر تلپو بن خواجہ فیروز کاشمیری: بڑے عالم فاضل،فقیہ محدث، صاحب درع اتقاء و متبع سنت تھے۔سات سال کی عمر میں قرآن شریف حفظ کر کےعبادت الٰہی اور ادائے سنن نبوی میں مشغول ہوئے،پہلے بابا نصیب سے علوم پڑھے پھر مولانا جوہرنات سے استفادہ کیا،چونکہ بنونہ تکمیل کو نہ پہنچے تھےکہ آپ کے والد ماجد فوت ہوگئے اس لیے آپ کاشمیر سےدہلی میں آئے اورقدوۃ المتأ خرین شیخ عبد الحق محدث دہلوی سے ظاہری عوم فقہ و حدیث وغیرہ کی تکمیل کی اور صاحب فتویٰ و عالمِ بے نظیر ہوکر کاشمیر کو واپس تشریف لے گئے،ان ایام میں والئ کشمیر نے تین دفعہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر کاشمیر کی قضاء کے لیے آپ کو کہا مگر آپ نے قبول نہ کیا،جب تقاضا شدیدعمل میں آیا تو آپ شباشب کاشمیر سے دوسرے مقام میں چلے گئے جب اور شخص منصب قجاء پر مقرر ہ۔۔۔
مزید
مخدوم شیخ عبد الرشید بن شیخ مصطفیٰ عبد الحمید عثمان: پہلا نام آپ کا محمد رشید تھا اور اسی کو دوست رکھتے تھے اور مراسلات و مکاتبات میں لکھتے تھے،لقب آپ کا شمس الدین تھا،مشاہیر علماء وقت اور اکابر مشائخ زمانہ سے تھے،بعد تحصیل علومِ اصولیہ وفروعیہ کے درس و تدریس میں مشغو رہے،پھر جاذبۂ حقیقی سے اپنے والد ماجد کے مرید ہوکر تمام تعلقات کو ترک کردیا،اکثر کتب حقائق و مارف کو مطالعہ کرتے اور کتب عربی سے بڑا ذوق رکھتے تھے۔شیخ محی الدین کی کتاب اسرار المخلوقات کی عمدہ شرح تصنیف فرمائے۔وفات آپ کی ۱۰۵۵ھ میں ہوئی۔ ’’خواجۂ گیتی‘‘ تاریخ وفات ہے۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔
مزید
شیخ ابراہیم بن حسن الاحسائی: اکابر علماء ائمہ میں سے فقیہ نجوی،جامع علومِ کثیرہ،محلی بالقضاعہ،متخلی للطاعہ تھے،علوم اپنے شہر کے شیوخ سے حاصل کیے اور مکہ معظمہ میں مفتی عبد الرحمٰن بن عیسٰی مرشدی سے اخذ کیا اور اجازت حاصل کی جس میں انہوں نے آپ کے تجرفی العلوم پر بڑا زور دیا جب شہر احساء میں آئے تو عارف باللہ شیخ تاج الدین ہندی سے طریقہ تصوف اخذ کیا اور آپ سے امیر یحییٰ بن علی پاشا حاکم احساء نے اخذ کیا،وہ آپ کی بڑی تعریف کرتا تھا اور آپ سے اخبار عجیبیہ بیان کرتا تھا۔تالیفات آپ نے کثرت سے کیں جن میں سے شرح نظم الاجرومیہ عمر یطی ار رسالہ دفع الاسیٰ فی اذکار الصبح والمساء اور اس کی شرح وغیرہ مشہور ہیں۔علاوہ ان کے اشعار کثیرہ بھی آپ سے یادگار ہیں،وفات آپ کی ۷؍ شوال ۱۰۴۸ھ کو شہر احساء میں ہوئی،’’ق۔۔۔
مزید
احمد بن علی بن ثعلب بعلبکی: مظفر الدین لقب تھا مگر ابن ساعاقی کےنام سے اس لیےمشہور تھےکہ آپ کے والد ماجد علی بن ثعلب علم ہئیت اور نجوم اور عمل ساعات میں بڑے ماہر باہر اور یگانۂ زمانہ تھے۔آپ شہر بعلبک میںجود دمشق سے بارہ فرسنگ کے فاصلہ پر ہے،پیدا ہوئے ور بغدد میں نشونما پایا اور کمال اکے رتبہ کو پہنچ کر علوم شرعیہ میں امام زمانہ اور فروع و اصول میں حافظ،متقن،اہل ثقاہت ہوئے چنانچہ مشائخ زمانہ نے اس بات پر اقرار کیا کہ آپ جو انمروی کے میدان کے شہسور گذرے ہیں۔شمس الدین اصفہانی شافعی شارح کتاب محصول آپ کو ابن حاجب پر فضیلت دیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ آپ ابن حاجب سے بہت ذکی ہیں،یہاں تک کہ لوگ ذکاء اور فصاحت و خوشخطی میں آپ سے تمثیل دیا کرتے تھے۔ علوم آپ نے تاج الدین علی بن سنجر تلمیذظہیر الدین محمد مصنف فتاویٰ ظہیریہ شاگرد حسن ق۔۔۔
مزید
ابو الیمن بن عبد الرحمٰن بن محمد بترونی حلبی: فقیہ فاضل،جامعِ علوم عقلیہ ونقلیہ متواضع،حسن الخلق،جواد تھے،علوم اپنے زمانہ کے علماء سے حاصل کیے اور مدرسہ عالیہ میں مدت تک مدرس رہے جب آپ کے بھائی ابی الجواد فوت ہوئے تو آپ حلب کے مفتی حنفیہ مقرر ہوئے اور مدت تک افتاء کے کام پر رہے،۱۰۰۴ھ میں حج کر کے دمشق میں آئے جہاں آپ کی بڑی تعظیم و تکریم ہوئی،شعر آپ کے مقبولِ انام تھے۔اسّی سال کی عمر میں وفات پائی۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔
مزید
مصطفیٰ بن محمد المشہور بہ عزمی زادہ: ملک روم میں علمائے متأخرین میں سے بڑے مشہور علامہ و فاضل اور سب سے تقریر و تحریر میں بڑے لائق و قابل ہوئے ہیں۔آپ کی مشور تصنیفات سے کتاب در روغرراور ابن ملک کی شرح منار پر حاشیہ ہے۔وفات آپ کو تقریباً ۱۰۴۰ھ میں ہوئی۔’’افضل الزماں‘‘ تاریخ وفات ہے۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔
مزید
ملّا عصمۃ اللہ سہارنپوری: مشاہیر علماء دین سے عالم فاض،فقیہ متجر تھے، اپنی تمام عمر کو خدمت علم اور تدریس میں صرف کیا،اخیر کو آنکھوں سے نابینا ہوگئے،تصانیف بھی مفید کیں جن میں سے حاشیہ شرح ملّا جامی ہے۔وفات آپ کی ۱۰۳۹ھ میں ہوئی۔’’دفتر دانش‘‘ تاریخ وفات ہے۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔
مزید