جمعرات , 27 جمادى الآخر 1447 ہجری (مدینہ منورہ)
/ Thursday, 18 December,2025

پسنديدہ شخصيات

(سیدنا) جحدم (رضی اللہ عنہ)

  ابن فضالہ۔ نبی ﷺ کے حضور  میں حاضر ہوئے تھے اور حضرت نے انھیں ایک تحریر لکھ دی تھی۔ ان کی حدیث محمد بن عمرو بن عبداللہ بن جحدم جہنی نے اپنے والد عمرو سے انھوں نے اپنے والد عبداللہ سے انھوں نے اپنے والد جحدم سے روایت کی ہے کہ وہ نبی ﷺ کے حضور میں حاضر ہوئے اور آپ نے ان کے سر پر مسح فرمایا اور فرمایا کہ اللہ جحدم میں برکت عنایت فرمائے اور آپ نے انھیں ایک تحریر لکھ دی تھی۔ انکا تذکرہ ابن مندہ اور ابو نعیم نے لکھا ہے۔ (اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)۔۔۔

مزید

(سیدنا) جحدم (رضی اللہ عنہ)

    حکیم کے والد ہیں۔ ان کا صحابی ہونا ثابت ہے۔ ان سے ان کے بیٹے حکیم نے روایت کی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا جو شخص اپنی بکری کو (خود) دوھے اور اپنے کرتے میں پیوند لگائے اور اپنی جوتی سی لے اور اپنے خادم کو اپنے ساتھ کھلائے اور بازار سے خود سودا لے آئے وہ تکبر سے بری ہے۔ ان کا تذکرہ ابن مندہ اور ابو نعیم نے لکھا ہے۔ (اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)۔۔۔

مزید

(سیدنا) حجاف (رضی اللہ عنہ)

  ابن حکیم بن عاصم بن سباع خزاعی بن محاربی بن مرہ بن بلال بن فالج بن ذکوان بن ثعلبہ بن بہشرین سلیم سلمی فاتک۔ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ یہ اشعار انھیں کے ہیں جن میں انھوں نے اپنے گھوڑے کی تعریف کی ہے اور جنگ حنین وغیرہ میں اپنی شرکت کا حال بیان کیا ہے۔ شعر شہدن مع النبی مسومات    حنینا دہی دامیۃ الحوای (٭ترجمہ تعلیم یافتہ گھوڑے جنگ حنین میں نبی کے ساتھ تھے اور ان کی حالت یہ تھی کہ جنگ میں خون کے فوارے ان کے جسم سے جاری تھے) یہ اشعار اس سے زیادہ ہیں۔ اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ اشعار حریش کے ہیں ہم نے ان اشعار کو وہاں ذکر کیا ہے۔ یہ حجاف وہی ہیں جنھوں نے بنی تغلب پر حملہ کیا تھا اور ان کو ان محاربات میں جو قیس اور تغلب کے درمیان میں ہوئیں بہت قتل کیا تھا اخطل نے (اسی کے متعلق) ایک شعر کہا تھا۔ لقد اوقع الجحاف بالبشر وقعۃ  الی اللہ منہا المشتکی والمعول (٭ترجمہ۔ بے شک جحا۔۔۔

مزید

حضرت شیخ محمد ملاوہ

آپ کو لوگ مصباح العاشقین کہا کرتے تھے۔ ابتداً آپ شیخ احمد رادتی کے مرید ہوئے اور اُنھیں کی خدمت میں رہ کر ریاضت و مجاہدہ کرتے رہے۔ بعد شیخ جلال گجراتی کی خدمت میں پہنچے اور عشق و محبت کی نسبت انہی کے ذریعہ درست کی آپ کامل شیخ اور صحیح الحال بزرگ تھے، سماع اور وجد کے رسیا تھے۔ ایک غزل خواں آپ کے سامنے وہ اشعار پڑھ رہا تھا جن میں فراق وجدائی کا تذکرہ تھا آپ پر ایسا وجد طاری ہوا کہ مرنے کے قریب پہنچ گئے، آپ کی اس حالت سے ایک شخص باخبر ہوا اس نے غزل خوانوں سے کہا کہ وہ اشعار پڑھو جس میں وصل و قرب کا تذکرہ ہو چنانچہ اس مضمون کے اشعار سنتے ہی آپ میں ایسی بشاشت و فرحت آگئی کہ گویا نئے سرے سے آپ میں جان آگئی۔        ع الوصل یحیی والفراق یمیت فمازلت فی العشق حیا و میا   گہ بلطفم می نوازد گہ بنازم مے کشد زندہ می سازو مرا آں شوخ و بانیم می کشد ایک مرتبہ آپ کے ۔۔۔

مزید

(سیدنا) جثامہ (رضی اللہ عنہ)

    ابن مساحق بن ربیع بن قیس کنانی۔ ان کا صحابی ہونا ثابت ہے۔ حضرت عمر کی طرف سے قاصد بن کے ہرقل (شاہ روم) کے پاس گئے تھے وہ کہتے تھے میں وہاں جاکر ایک چیز پر بیٹھ گیا مجھے یہ نہیں معلوم تھا کہ میرے نیچے کیا چیز ہے یکایک مجھے معلوم ہوا کہ میرے نیچے سونے کی ایک کرسی ہے چنانچہ جب میں نے اسے دیکھا تو میں فورا اس سے اتر پڑا ہرقل مسکرایا اور اس نے کہا کہ تم اس کرسی سے کیوں اتر پڑے یہ تو محض تمہاری عظمت کے لئے بچھوائی تھی میں نے کہا کہ میں نے رسول خدا ﷺ سے سنا ہے کہ آپ اس قسم (کی چیز پر بیٹھنے) سے منع فرماتے تھے۔ ان کا تذکرہ ابن مندہ اور ابو نعیم نے لکھا ہے۔ (اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)۔۔۔

مزید

حضرت شیخ جلال گجراتی

آپ شیخ پیارے کے مرید اور اپنے وقت کے کامل ولی اللہ اور صاحب کرامات تھے اور ظاہری و باطنی کمالات کے حامل تھے کہتے ہیں کہ علاقہ گجرات کے رہنے والے تھے لیکن گورو نب گالہ میں بادشاہوں کی طرح رہتے اور احکام جاری کرتے تھے اہل غرض لوگوں نے بادشاہ گور کے دل میں آپ کے متعلق مختلف قسم کے وہم اور شبہات پیدا کردئیے جس کی وجہ سے بادشاہ نے آپ کو شہید کرایا۔ جلاد اور قاتل آپ کی خانقاہ میں داخل ہوئے اور خون ریزی شروع کردی، وہ جب آپ کے کسی مرید کو قتل کرتے تو آپ یا قہار پڑھتے لیکن جب ان لوگوں نے آپ پر تلوار چلائی تو آپ نے یا رحمٰن یا رحمٰن پڑھا اور یہی کہتے کہتے شہید ہوگئے، شہید ہوجانے کے بعد آپ کا سر زمین پر پڑا ہوا اللہ اللہ کی صدائیں بلند کر رہا تھا۔    ؎ محبت میں سر کو کٹا کر تو دیکھو! اخبار الاخیار۔۔۔

مزید

ا(سیدنا) جثامہ (رضی اللہ عنہ)

  ابن قیس۔ ان کا ذکر اس حدیث میں ہے جو اوپر گذر چکی۔ ان کا ذکر حبیب بن عبید رحبی نے ابو بشر سے انھوں نے جثامہ بن قیس سے جو نبی ﷺ کے اصحاب میں سے تھے انھوں نے عبداللہ بن سفیان سے انھوں نے نبی ﷺ سے روایت کی ہے کہ جو شخص اللہ کے لئے ایک دن بھی روزہ رکھے اللہ اس کو دوزخ سے بقدر سو برس کی مسافت کے دور کر دیتا ہے۔ ان کا تذکرہ ابن مندہ نے لکھا ہے۔ (اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)۔۔۔

مزید

(سیدنا) جبیر (رضی اللہ عنہ)

  ابن نوفل۔ ان کا (پورا) نسب نین بیان کیا گیا مطین نے ان کا ذکر صحابہ میں کیا ہے حالانکہ اس میں کلام ہے۔ابوبکر بن عیاش نے لیث سے انھوںنے عیسی سے انھوںنے زید بن ارطاۃ سے انھوںنے جبیر بن نوفل سے روایت کی ہے کہ انھوں نے کہا رسول خدا ﷺ نے فرمایا کوئی تقرب چاہنے والا خدا سے اس سے زیادہ تقرب نہیں حاصل کرسکتا جس قدر اس چیز کے ذریعہ سے حاصل ہوتا ہے جو اسی (خدا) سے نکلی ہے یعنی قرآن۔ اس حدیث کو بکر بن خنیس نے لیث سے انھوں نے زید بن ارطاۃ سے انھوںنے ابوامماہ سے روایت کیا ہے۔ اور نیز اس حدیث کو حارث نے زید سے انھوں نے جبیر بن نفیر سے انھوں نے نبی ﷺ سے مرسلا روایت کیا ہے اور یہی صحیح ہے (مرسلا روایت کرنے سے معلوم ہوا کہ یہ خود صحابی نہیں ہیں) ان کا تذکرہ ابن مندہ اور ابو نعیم نے لکھا ہے۔ (اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)۔۔۔

مزید

  (سیدنا) جبیر (رضی اللہ عنہ)

  ابن نفیر۔ کنیت ان کی ابو عبدالرحمن۔ حضرمی۔ نبی ﷺ کی حیات میں اسلام لائے تھے جب یمن میں تھے آنحضرت علیہ السلام کو دیکھا نہیں جب مدینہ میں آئے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو پایا بعد اس کے شام چلے گئے اور مقام حمص میں رہے۔ حضرت ابوبکر و عمر اور ابو زر رضی اللہ عنہم اور مقدار و ابو الدرداء وغیرہم (جیسے جلیل الشان صہابہ رضی اللہ عنہم) سے انھوںنے روایت کی ہے۔ ان سے ان کے بیٹے نے اور خالد بن معدان وغیرہما نے رویت کی ہے۔ ابو عمر نے کہا ہے کہ جبیر بن نفیر شامکے بڑِ(جلیل القدڑ) تابعین میں تھے اور ان کے والد نفیر صحابی تھے اور ہم نے ان کا تذکرہ نون کے باب میں کیا ہے۔ ان سے ان کے بیٹِ عبدالرحمن نے روایت کی ہے کہ انھوں نے کہا رسول خدا ﷺ کا قاصد ہمارے پاس یمن گیا اور ہم اسلام لے آئے۔ انھوں نے نبی ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا جو لوگ جہاد کرتے ہیں اور اپنے دشمن پر تقویت کے لئے (٭مطلب یہ ہے کہ ۔۔۔

مزید

حضرت سیداللہ

آپ میر سید محمد گیسو دراز کے پوتے اور خلیفہ تھے، عِشق و مَحَبت آپ کا بہترین مشغلہ تھا، آپ ابھی بچّہ تھے کہ سید محمد گیسو دراز نے وضو کرتے ہوئے سر کا مسح کرتے وقت اپنی ٹوپی اُتار کر ایک جگہ رکھ دی تھی۔ اسی اثناء میں سیدید اللہ بھی اس طرف آئے اور ٹوپی کو دیکھ کر بچوں کی طرح اٹھاکر اپنے سر پر رکھ لی۔ یہ دیکھ کر میر سید محمد گیسو دراز نے فرمایا کہ یہ خلعت ہے اور الحمدللہ عزوجل کے امانت کے حقدار اور اہل کو مل گئی۔ اس کے بعد سید گیسو و راز جس کو مرید کرتے اس کو سدید اللہ کے سپرد کردیا کرتے البتہ ذکر وغیرہ کی تلقین خود فرمایا کرتے تھے۔ مشہور ہے کہ سدید اللہ کو ایک عورت سے عِشق ہوگیا تھا چنانچہ آپ نے اپنے دل پر قابو کیا اور اس کی الفت کو صیغۂ راز ہی میں رکھا بالآخر اس سے نکاح کرلیا، وہاں کے علاقے کے رواج کے موافق ان کی صبح کو ملاقات ہوئی۔ سدید اللہ نے اس کے جمال پر ایک نظر کی کہ اس نے ایک ٹھنڈی سا۔۔۔

مزید