ابن عبس۔ بعض لوگ ان کو ابن عیسی کہتے ہیں۔ بصرہ کے اعراب سے ہیں۔ عبدالرحمن بن جبلہ سے روایت ہے وہ قرہ بنت مزاحم سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا ہم نے ام عیسی سے سنا وہ اپنے والد جراد بن عیسی یا عبس سے رویت کرتی تھیں کہ انھوں نے کہا ہم نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ہمارے یہاں کنویں ہیں جن میں سوت جاری ہیں پس کیا (اچھا) ہوتا اگر آپ (اپنا لعاب دہن انھیں ڈال کر) ان کو شیریں کر دیتے اور بعد اس کے راوی نے پوری حدیث ذکر کی۔ ان کا تذکرہ ابن مندہ اور ابو نعیم نے اسی طرح مکتصر لکھا ہے۔ (اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)۔۔۔
مزید
کنیت ان کی ابو عبداللہ عقیلی۔ ان سے ان کے بیٹِ عبداللہ نے رویت کی ہے بشرط یہ کہ صحیح ہو۔ یعنلی بن اشدق نے عبداللہ بن جراء سے انھوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ وہ کہتے تھے رسول خدا ﷺ نے (ایک مرتبہ) ایک سریہ (٭سریہ چھوٹے لشکر کو کہتے ہیں جس میں کم از کم پانچ آدمی ہوں اور زیادہ سے زیادہ تین سو چار سو) (جہاد کے لئے)بھیجا اس میں قبیلہ ازد اور اشعر کے کچھ لوگ تھے انھوں نے وہاں مال غنیمت حاصل کیا اور بسلامت واپس آئے نبی ﷺ کو ان کی بخیریت واپسی پر نہایت مسرت ہوئی اور آپ نے فرمایا کہ قبیلہ ازد اور اشعر کے لوگ تمہارے پاس آئے ہیں جن کے منہ اچھے ہیں وہ نہ غنیمت میں خیانت کرتے ہیںاور نہ مردی کرتے ہیں۔ انکا تذکرہ ابن مندہ اور ابو نعیم نے کیا ہے۔ (اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)۔۔۔
مزید
ابن ابی الجراح اشجعی۔ انکا صحابی ہونا ثابت ہے۔ ان سے عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے رویت کی ہے وہ کہتے تھے ہمیں ابو یاسر بن نے اپنی سند سے ابن احمد بن حنبل تک خبر دی وہ کہتے تھے مجھ سے میرے والد نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہمیں ابودائود نے خبر دی وہ کہتے تھے میں ہشامنے قتادہ سے انھوں نے خلاس سے انھوں نے عبداللہ بن عتبہ سے روایت کر کے خبر دی کہ وہ کہتے تھے عبداللہ بن مسعود سے ایک مسئلہ پوچھا گیا کہ ایک شخص نے ایک عورت سے نکاح کیا اور نوبتہمسبتری کی نہیں آئی کہ اس شخص کا انتقال ہوگیا اور اس عورت کا کچھ مہر مقرر نہیں کیا تھا ایک مہینے تک ان سے برابر یہ مسئلہ پوچھا گیا مگر انھوں نے جواب نہیں (٭صحابہ کی حرم و احتیاط کا نمونہ اس رویت سے معلوم ہوتا ہے اسی حرم و احتیاط کو جب ہمارے ائمہ نے خوب جانچ لیا تو یہ کلیہ مقرر کیا کہ جو بات عقل سے معلوم ہوسکتی ہے اس کے متعلق صحابہ کا قول حدیث نبی کے حکم میں ہے) دی۔۔۔
مزید
ابن شاہین نے ان کا تذکرہ لکھا ہے اور کہا ہے کہ یہ صحابہ میں سے ایک شخص ہیں محمد بن ابراہیم بن زیاد نیشاپوری نے مقدمی سے انھوں نے سلم بن قتیبہ سے انھوں نے ذیال بن عبید سے انھوں نے حنظلہ بن حنیفہ سے انھوں نے جذبہ سے رویت کی ہے کہ انھوں نے کہا رسول خدا ﷺ نے فرمایا (مرد کے لئے) بعد احتلام ۰یعنی بلوغ) کے یتیمی (٭مطلب یہ ہے کہ یتیموں کے ساتھ جس برتائو کا حکم ہے ان کے ساتھ نہ برتا جائے تو کچھ حرج نہیں) نہیں رہتی اور لڑکی کے لئے جب وہ ٍاہضہ ہونے لگے تو یتیمی نہیں رہتی۔ ان کا تذکرہ ابو موسی نے لکھاہے اور کہا ہے کہ یہ وہم ہے اور تصحیف ہے شید انھوںنے عن جدہ کا لفظ لکھاہے راوی نے اس کو جذیہ کہہ دیا نام ان کا حنظلہ ہے۔ اس حدیث کو مطین نے مقدمی سے انھوں نے سلمس ے انھوں نے ذبال سے انھوں نے اپنے دادا حنظلہ سے روایت کیا ہے کہ رسول خدا ﷺ نے ایسا ہی فرمایا۔ ان کا تذکرہ ابو موسی نے لکھا ہے۔ (اسد۔۔۔
مزید
انصاری۔ ان کا تذکرہ ابن شاہیں نے اور ابو الفتح ازدی نے لکھا ہے مگر ازدی نے ان کا نام خاء معجمہ کے ساتھ لکھا ہے۔ شریک بن ثمر نے رویت کی ہے کہ وہ کہتے تھے مجھ سے انصار کے ایک شخص نے جن کا نام ابن الجذع تھا اپنے والد سے روایت کر کے بیان کیا کہ وہ کہتے تھے رسول خدا ﷺ نے فرمایا میری امت کے اکثر لوگوں کی یہ حالت ہوگی کہ نہ انھیں بہت (٭حدیث میں اکثر لوگوں کی لفظ ہے لہذا اگر بعض کی حالت اس کے خلاف ہو تو کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا مسلمانوں میں سائلوں کی کثرت سے دیکھ کر کوئی شبہ نہ کرے اگر سے کیا جائے تو بہت سے سائل بے ضرورت سوال کرنے والے نکلیں گے) دیا جائے گا کہ وہ اترا جائیں اور نہ ان پر ایسی تنگی کی جائے گی کہ وہ سوال کریں۔ ان کا تذکرہ ابو موسی نے لکھاہے اور کہا ہے کہ صحابہ میں ایک شخص ثعلبہ ابن زید ہیں جن کو لوگ جذع کہتے ہیں ان کے بیٹِ ثابت بن جذع ہیں یا اور کوئی۔ کئی جگہ ان کا نام جدع دال ۔۔۔
مزید
ابن سیرۃ عنقی ان کا صحابی ہونا ثابت ہے۔ فتح مصر میں شریک تھے ابو سعید بن یونس نے ان کا ذکر لکھا ہے انھیں سے ابن مندہ نے نقل کیا ہے۔ ان کا تزکرہ ابن مندہ اور ابو نعیم نے لکھا ہے۔ (اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)۔۔۔
مزید
ابن نذیر مرادی کعبی۔ کعب بن عوف بن انعم بن مراد کی اولاد سے ہیں رسول خدا ﷺ کی صحبت اٹھائی ہے اور آپ کی خدمت کی ہے۔ ابن مندہ نے بیان کیا ہے کہ میں نے ابو سعید یعنی عبدالرحمن بن احمد بن یونس بن عبدالاعلی سے سنا ہے کہ انھوں نے اپنی کتاب تاریخ میں ان کا ذکر اسی طرح لکھا ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا۔ ابو نعیم نے ان کا نام لکھنے کے بعد کہا ہے کہ ان کا تذکرہ ابن مندہ نے ابو سعید بن یونس سے نقل کر کے لکھا ہے۔ (اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)۔۔۔
مزید
ابن قیس بن صخر بن خنساء بن سنان بن عبید بن عدی بن غنم بن کعب ابن سلمہ انصاری سلمی۔ کنیت ان کی ابو عبداللہ۔ براء بن معرور کے چچازاد بھائی ہیں ان سے جابر نے اور ابوہریرہ نے روایت کی ہے۔ یہ ان لوگوں میں سے ہیں جن کی طرف نفاق کا گمان کیا جاتا ہے۔انھیں کے حق میں اللہ تعالی کا یہ قول نازل ہوا تھا ومنہم من یقول ائذن لی ولا تفتنی الا فی الفتنہ سقطوا (٭ترجمہ ان (منافقوں) میں سے بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ (اے نبی) مجھے (جہاد میں نہ جانے کی) اجازت دیجئے اور مجھے فتنہ میں نہ ڈالئے آگاہ ہو وہ خود فتنہ میں گرے ہیں) اس کا واقعہ یوں ہے کہ رسول خدا ﷺ نے (ایک مرتبہ اپنے اصحاب سے) فرمایا کہ اہل روم سے جہاد کرو تمہیں رومی لڑکیاں غنیمت میں ملیں گی تو جد بن قیس نے کہا کہ سب انصار جانتے ہیں کہ میں جب عورتوں کو دیکھتا ہوں تو مجھے صبر نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ میں فتنے میں پڑ جاتا ہوں (لہذا میں آپ ۔۔۔
مزید
اسلمی۔ ہمیں یحیی بن محمود بن سعد نے اجازۃ اپنی سند سے ابن ابی عاصم تک خبر دی وہ کہتے تھے ہم سے عمر بن خطاب نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہمیںابو معاذ حکمی نے سعد بن عبداللہ بن جعفر سے نقل کر کے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں ابو الفضل عباس بن فضل بن عمرو بن عبید بن فضل بن حنظلہ نے قاسم بن عبدالرحمن سے انھوں نے زہری سے انھوں نے یزید بن شجرہ سے انھوں نے جدار سے جو اصحاب نبی ﷺ میں سے ایک شخص تھے روایت کر کے خبر دی کہ وہ کہتے تھے ہم کسیجہاد میں نبی ﷺ کے ہمراہ تھے جب دشمن سے مقابلہ ہوا تو حضرت کھڑے ہوگئے اور آپ نے الہ کیحمد و ثنا بیان کی بعد اس کے فرمایا کہ اے لوگو تم اس وقت سبز، سرخ اور زرد کے درمیان میں ہو اور لوگوں میں وہ باتیں ہیں جو ہیں پس جب تم اپنے دشمن سے ملو تو پیش قدمی کرو کیوں کہ جو شخص خدا کی راہ میں (کسی دشمن پر) حملہ کرتا ہے تو دو حورعین اس کی طرف بڑھتی ہیں پھر جب جنگ شروع ہوتی ہے تو وہ۔۔۔
مزید
جہنی۔ ان سے ان کے بیٹے عبداللہ نے روایت کی ہے۔ حضرمی نے مفارید میں ان کا ذکر لکھا ہے۔ محمد بن ابراہیم بن حارث نے عبداللہ بن جحش سے انھوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ انھوں نے کہا میں نے عرض کیا یارسول اللہ میرا ایک جنگل ہے میں وہاں جاکے نماز پڑھا کرتا ہوں آپ مجھے کوئی رات بتا دیجئے کہ میں اس مسجد میں آکے نماز پڑھوں نبی ﷺ نے فرمایا کہ تئیسویں شب کو تم یہاں آئو پھر چاہے نماز پڑھنا اور چاہے نہ پڑھنا۔ یہ حدیث عبداللہ بن انیس جہنی سے بہت سندوں سے مروی ہے کہ اس کو مسلم نے بھی اپنی صحیح میں اور ابودائود نے اپنے سنن میں لکھا ہے اور زہری نے اس کو ضمرہ بن عبداللہ بن انیس سے انھوں نے اپنے والد سے روایت کیا ہے اور یہی صحیح ہے۔ ان کا تذکرہ ابن مندہ اور ابو نعیم اور ابو موسی نے لکھا ہے۔ (اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)۔۔۔
مزید