دیلمی۔ یہ ان لوگوں میں سے ہیں جنھیں نبی ﷺ نے اسود حنسی کے قتل کے لئے یمن میں خط لکھا تھا اور انھوں نے فیروز اور دازدیہ کے ساتھ مل کے اسے قتل کر دیا۔ طبری نے ان کا ذکر لکھا ہے۔ امیر ابو نصر نے لکھاہے کہ خشیس بضم خاے معجمہ و شین معجمہ مکررہ تبصغیر ہے اور سب لوگوں نے ان کا ذکر لکھا ہے باقی رہے جشیش ان کا ذکر انھوں نے بھی ایسا ہی لکھاہے جیساکہ ا وپر ہوچکا صرف یہ فرق ہے کہ اس کے شروع میں جیم ہے یہ جشیش دیلمی ہیں رسول خداﷺ کے زمانے میں یمن میں تھے اور اسود عنسبی کے قتل میں انھوں نے اعانت کی تھی۔ (اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)۔۔۔
مزید
ان کا نسب معلوم نہیں۔ جہضم بن عثمان نے ابن جشیب سے انھوں نے اپنے والد سے انھوںنے نبیﷺ سے رویت کی ہے کہ آپنے فرمایا جو شخص میرے نام پر نام رکھ لے گا وہ میرے برکت اور یمن کا امیدوار ہے اس پر صبح شام برکت نازل ہوا کرے گی قیامت تک یہ جشیب پرانے تابعی ہیں حضرت ابو الدرداء سے روایت کرتے ہیں۔ حمص کے رہنے والے ہیں۔ ابن ابی عاصم نے کہا ہے میں نہیں جانتا کہ جشیب صحابی ہیں یا نہیں اور انھوں نے زمانہ آنحضرت ﷺ کا پایا یا نہیں۔ ان کا تذکرہ ابن مندہ اور ابو نعیم نے لکھا ہے۔ (اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)۔۔۔
مزید
ابن ماکولا نے کہا ہے کہ جبر میں اگر جیم کو مکسور اور سین مہملہ کو ساکن پڑھیں تو یہ جسر بیٹے ہیں وہب بن سلمہ ازدی کے انھوں نے نبی ﷺ سے ایک حدیث روایت کی ہے جس کی روایت ان سے صرف ان کی اولاد نے کی ہے۔ (اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)۔۔۔
مزید
ابن معاویہ بن حصین بن عبادہ بن نزال بن مرہ بن عبید بن مقاعس۔ مقاعس کا نام حارث بن عمرو بن کعب بن سعد بن زید مناہ ابن تمیم۔ تمیمی سعدی۔ احنف بن قیس کے چچا۔ بعض لوگ ان کو صحابی کہتے ہیں اور بعض لوگ کہتے ہیں ان کا صحابی ہونا ثابت نہیں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی طرف سے اہواز کے حاکم تھے۔ ان کا تذکرہ ابو عمرن ے اسی طرح لکھا ہے اور بعض لوگوں نے ان کا نام جزء بنایا ہے یعنی آخر میں ہمزہ واللہ اعلم۔ (اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)۔۔۔
مزید
کنیت ان کی ابو خزیمہ سلمی ہیں اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ اسلمی ہیں۔ رسول خدا ﷺ کے حضور میں حاضر ہوئے تھے اور آپ نے ان کو دو چادریں دی تھیں۔ ان کی حدیث ان کے بیٹے عبداللہ بن زی نے اپنے بھائی حیان بن جزی سے انھوں نے جزی سے رویت کی ہے کہ وہ نبی ﷺ کے حضور میں رسول خدا ﷺ کے ایک صحابی کو جو ان کے یہاں قید تھے لے کے آئے تھے ان لوگوں نے بحالت شرک ان کو قید کر لیا تھا بعد اس کے دو لوگ مسلمان ہوگئے اور اس قیدی کو رسول خدا ھ کے پاس لے آئے تو (اس کے صلہ میں) آپ نے جزی کو دو چادریں عنایت فرمائیں جزی اسلام لے آئے ان کا تذکرہ تینوں نے لکھا ہے۔ دارقطنی نے کہا ہے کہ اصحاب حدیث تو جزی کے نام میں جیم کو زیر کہتے ہیں اور اصحاب عربیت کہتے ہیں جیم مفتوح ہے اور اس کے بعد زے اور ہمزہ ہے اور عبدی الغنی نے کہا ہے کہ جزی کی جیم مفتوح ہے اور زے مکسور ہے اور بعض لوگ جیم مکسور اور زے کو ساکن کہتے ہیں۔ المختصر ان نا۔۔۔
مزید
جیم اور زاے مکسورہ کے ساتھ اور آخر میں یے ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں ان کا نام جری ہے جیم مضموم اور رے کے ساتھ ان کی حدیث کفتار کے متعلق گزر چکی ہے۔ ابو عمر نے ان کا تذکرہ وہیں لکھا ہے۔ (اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)۔۔۔
مزید
ان کا نسب نہیں بیان کیا گیا۔ ان کا شماراہل شام میں ہے۔ معاویہ بن صالح نے اسد بن وداعہ سے انھوں نے ایک شخص سے جن کا نام جزء ہے رویت کیا ہے کہ انھوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ میرے گھر والے میرا کہنا نہیں مانتے پس کیا میں ان کو سزا دوں حضرت نے فرمایا کہ معاف کر دو پھر دوبارہ انھوں نے آپ سے شکایت کی آپ نے فرمایا کہ معاف کر دو اور فرمایا کہ اگر سزا دو تو صرف اس قدر جس قدر خطا ہے۔ اور منہ پر مارنے سے احتیاط کرو۔ ان کا تذکرہ ابن مندہ اور ابو نعیم نے لکھا ہے۔ (اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)۔۔۔
مزید
ابن مالک بن عامر بنی جمجہا میں سے ہیں۔ انصاری ہیں۔ جنگ یمامہ میں شہید ہوئے تھے۔ انکا تذکرہ موسی بن عقبہ نے اسی طرح لکھاہے اور طبری نے کہا ہے کہ (ان کا نام) حر بن مالک ہے بضم حاء مہملہ وراء اور کہا ہے کہ یہ ان صہابہ میں ہیں جو جنگ احد میں شریکت ھے۔ ان کا پورا ذکر جرو کے بیان میں اوپر ہوچکا ہے۔ ان کا تذکرہ ابو نعیم اور ابو عمر نے لکھا ہے۔ (اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)۔۔۔
مزید
ابن عمرو حذری بعض لوگ ان کو جرو کہتے ہیں اور بعض لوگ جزء کہتے ہیں۔ نبی ﷺ کے حضور میں حاضر ہوئے تھے اور آپ نے انھیں ایک تحریر لکھ دی تھی ابو عمر نے ان کا تذکرہ یہاں مختصر لکھا ہے اور ابن مندہ اور ابو نعیم نے انکا ذکر جرو میں لکھا ہے رے اور واو کے ساتھ۔ ان کا ذکر اوپر ہوچکا ہے۔ (اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)۔۔۔
مزید
سدوسی ثم الیامی۔ کہتے تھے کہ میں رسول خدا ﷺ کے حضور میں (مقام یمامہ کے خرمے لے کے حاضر ہو رہا تھا بعض لوگ ان کا نام جرو کہتیہیں جیم اور رے کے ساتھ آخر میں واو۔ ان کا ذکر اوپر ہوچکا ہے۔ ان کا ذکر ابن مندہ اور ابو نعیم نے یہاں لکھا ہے اور ابو عمر نے وہیں لکھا ہے۔ (اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)۔۔۔
مزید