اعمی۔ ہمیں ابو غانم محمد بن ہبۃ اللہ بن محمد بن ابی جرادہ نے خبر دی وہ کہتے تھے میں ابو المظفر سعید بن سہل فلکی نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیںابو الحسن علی بن احمدبن محمد بن عبید اللہ اخرم نے خبر دی وہ کہتے تھے میںابو نصر بن علی قامی نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں ابو العباس اصم نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں ربیع بن سلیمان نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں اسد بن موسی نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں نصر بن طریف نے ایوب بن موسی سے انھوں نے مقبری سے انھوں نے ذکوان سے انھوں نے ام سلمہ سے ریت کر کے خبر دی کہ وہ رسول خدا ﷺ کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں کہ جمہان اعمی آگئے رسول خدا ﷺ نے فرمایا کہ (اے ام سلمہ) ان سے چھپو انھوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ جمہان تو اندھے ہیں آپنے فرمایا کہ عورتوں کو بھی مردوں کا دیکھنا مکروہ ہے جس طرح کہ مردوں کو عورتوں کا دیکھنا مکروہ ہے۔ (اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)۔۔۔
مزید
ابن نعمان بن ہوذہ بن مالک بنب سمعان بن بیاع بن ولیم بن عدی بن خراز بن کامل بن عذرہ بنی عذرہ کے سردار تھے عذر کے وفد کے ساتھ نبی ﷺ کے حضور میں حاضر ہوئے تھے اور ان کا صدقہ آپ کے پاس لائے تھے یہ طبری کا قول ہے۔ انھوںنے نبی ﷺ سے رویت کی ہے کہ آپنے (ان کو قربانی کے) بال اور خون کے دفن کر دینے کا حکم دیا تھا نبی ﷺ نے انھیں وادی قری میں اتنی زمیں معافی میں دی تھی جس میں ان کا گھوڑا جاسکے اور ان کا گھوڑا دوڑ سکے۔ یہ پہلے شخص ہیں جو عذرہ کا صدقہ نبی ﷺ کے پاس لے کے آئے تھے۔ ان کا تذکرہ ابو نعیم اور ابو عمر اور ابو موسی نے لکھا ہے مگر ابو موسی نے ان کے نسب سے تین آدمیون کو ساقط کر دیا ہے انھوںنے ان کا نسب اس طرح بیان کیا ہے بیاع بن کاہل بن عذرہ مگر جو ہم نے بیان کیا وہ صحیح ہے ابن ماکولا اور ابن کلبی وغیرہما نے ان کا ذکر اسی طرح کیا ہے۔ (اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)۔۔۔
مزید
کندی۔ حماد بن سلمہ نے عاصم بن بہدار سے رویت کی ہے کہ جو کندی نے کہا مجھے ایک پیالہ مل جائے جس سے میں کچھ کھالوں تو یہ مجھے اس سے زیادہ محبوب ہے کہ مجھے بٹے کی ولادت کی کوشخبری دی جائے پس نبی ﷺ سے یہ بات بیان کی گئی آپ نے پوچھا کہا ے جمد تم نے ایسا کہا تھا انھوںنے کہا ہاں تو نبی ﷺ نے فرمایا کہ اولاد تو ثمرہ قلب اور خنکی چشم ہیں اور (وہ ایسی محبوب چیز ہیں کہ) ان کی وجہسے آدمی رنجیدہ ہوتا ہے اور بخیل بن جاتا ہے اور بزدل ہو جاتا ہے (تم ان کی ایسی ناقدری کرتے ہو) اس حدیث کو سفیان نے سلیمان سے انھوںنے خیثمہ سے روایت کیا ہے کہ اشعث بن قیس کندی کو بیٹے کے ولادت کی بشارت دی گئی اور وہ نبی ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اس کے بعد راوی نے ویسی ہی حدیچ بیان کی۔ اور س حدیث کو مجالد نے شعبی سے روایت کیا ہے کہ اشعث ابن قیس الخ ابو نعیم نے کہا ہے کہ یہی مشہور اور مستفیض ہے اور حماد بن سلمہ نے اشعث بن قیس ۔۔۔
مزید
باہلی۔ ابو موسی نے کہا ہے کہ ازدی نے ان کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ ان کا صحابی ہونا ثابت ہے انھوں نے اپنی اسند سے بکر بن خنیس سے انھوں نے عاصم بن عاصم سے انھوں نے جمانہ باہلی سے روایت کیا ہے کہ انھوں نے کہا رسول خدا ﷺ نے فرمایا جب اللہ عزوجل نے موسی علیہ السلام کو فعون کے لئے بددعا کرنے کی اجازت دی تو (موسی علیہ السلام نے بددعا کی) فرشتوں نے آمیں کہی اللہ نے فرمایا کہ میں نے تیری دعا اور ان لوگوں کی دعا جو اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں قبول کر لی بعد اس کے رسول خدا ﷺ نے فرمایا کہ جہاد کرن والوںکی ایذا سے بچو کیوں کہ اللہ ان کے لئے غضبناک ہوتا ہے جیسا کہ پیغمبروں کے لئے غضبناک ہوتا ہے اور ان کی دعا بھی اسی طرح قبول کرتاہے جس طرح پیغمبروں کی دعا قبول کرتا ہے۔ انکا تذکرہ ابو موسی نے لکھاہے۔ (اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)۔۔۔
مزید
ابن عبداللہ بن محارب ن ناشب بن غیرۃ بن سعد بن لیث بن بکر بن عبد مناہ بن کنانہ بن خزیمہ۔ یہ واقدی کا قول ہے۔ اور ابن اسحاق نے کہا ہے کہ (ان کے والد کا نام) عبداللہ بن حارث لیثی (ہے) طائف میں رسول خدا ﷺ کے ہمراہ شہید ہوئے پس ابن اسحاق نے محارب کی جگہ پر حارث کہہ دیا ہے اور باقی نسب اسی طرح بیان کیا ہے۔ اس کو یونس بن بکیر نیابن اسحاق ے روایت کی اہے۔ انک ا تذکرہ ابن مندہ اور ابو نعیم نے لکھا ہے۔ (اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)۔۔۔
مزید
بضم جیم بروزن قتیدیل۔ یہ انصاری ہیں۔ انکا ذکر ابو برزہ اسلمی کی حدیچ میں ہے ایک انصاری مرد کی لڑکی کے نکاح کرا دینے کے قصہ میں یہ پستہ قامت اور کم رو تھے پس وہ انصاری یعنی لڑکی کا باپ اور اس کی ماں ان سے نکاح کرنا نہ چاہتے تھے مگر جب لڑکی نے سنا کہ رسول خدا ﷺ کا یہ ارادہ ہے تو اس نے اللہ تعالی کا یہ قول پڑھا وما کان مومن ولا مومنۃ اذا قضی اللہ و رسولہ امرا ان تکون لھم اخیرۃ من امرہم (٭ترجمہ کسی ایماندار مرد اور کسی ایماندار عورت کو یہ نہن پہنچتا کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی کام کا حکم دیں تو ان کو اپنے اس کام ین اختیار باقی رہے یعنی اس کام کا کرنا ان پر ضروری ہے) اور کہا کہ میں اس بات پر راضی ہوں اور اس کو برقرار رکھتی ہوں جو میرے لئے رسول خدا ھ نے پسند فرمائی ہے پس رسول خدا ھ نے اس لڑکی کے لئے دعا کی اور فرمایا کہ اے اللہ ان دونوں پر خیر (و برکت) نازل فرما اور ان کی زندگی ک۔۔۔
مزید
ابن عمرو کندی۔ ان کی حدیث زید بن بلال بن قطبہ کندی نے اپنے والد سے انھوں نے جلاس بن عمرو کندی سے روایت کی ہیک ہ انھوں نے کہا میں اپنی قوم یعنی بنی کندہ کے کچھ لوگوں کے ہمراہ نبی ﷺ کے حضور میں گیا تھا جب ہم لوگ اپنے وطن لوٹنے لگے تو ہم نے عرض کیا کہ یا نبی اللہ ہمیں کچھ وصیت کیجئے آپ نے فرمایا ہر کام کرنے والے کی انتہا ہوتی ہے اور ابن آدم کی انتہا موت ہے پس تم اپنے پروردگار کا ذکر لازم کر لو کیوں کہ وہ تم پر ہر مصیبت کو) آسان کر دے گا اور تمنہیں آخرت کی طرف راغب کرے گا اس حدیث کو ابو موسینے اپنیسند سے لکھا ہے اور کہا ہے کہ علی بن قرین جو راوی حدیث ہیں ضعیف ہیں۔ (اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)۔۔۔
مزید
ابن صلبت یربوعی۔ نبی ﷺ کے حضور میں حاضر ہوئے تھے اور آپ سے وضو کی کیفیت پوچھی تھی۔ ان سے ان کی بیٹی ام متقد نے روایت کی ہے کہ یہ نبی ﷺ کے حضور میں حاضر ہوئے اور آپ سے وضو کی کیفیت پوچھی آپ نے فرمایا کہ ایکایک مرتبہ (بھی تمام اعضاء کا دھونا) کافی ہے اور دو مرتبہ (بہتر ہے) اور میں ین خود آپ کو تین تین مرتبہ دھوتے ہوئے دیکھا۔ ان کا تذکرہ ابن مندہ اور ابو نعیم نے لکھاہے۔ (اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)۔۔۔
مزید
ابن سوید بن صامت بن خالد بن عطیہ بن خوط بن حبیب بن عمرو بن عوف بن مالک بن اوس۔ انصاری اوسی بعد اس کے یہ بنی عمرو بن عوف سے ہوئے۔ ان کا صحابی ہونا ثابت ہے اور ان کا ذکر مغازی میں ہوتا ہے۔ ابو صالح نے ابن عباس سے رویت کی ہے کہ حارث بن سوید ابن صامت دس فرقوں کے ساتھ اسلامس ے مرتد ہوگئے تھے اور مکہ چلے گئے تھے۔ پھر حارث بن سوید نادم ہوئے اور مکہ سے لوٹے یہاں تک کہ جب مدینہ کے قریب پہنچے تو اپنے بھائی جلاس بن سوید کے پاس کہلا بھیجا کہ میں اپنی حرکت پر نادم ہوں تم رسول خدا ﷺ سے میری طرف سے پوچھو کہ میں لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دیتا ہوں پس کیا اگر میں حاضر ہو جائوں تو میری توبہ مقبول ہو جائے گی اگر نہ مقبول ہو تو میں پھر مکہ لوٹ جائوں چنانچہ جلاس نبی ﷺ کے حضور میں حاضر ہوئے اور آپ سے حارث کا حال اور ان کی ندامت کا اور ان کے شہادت دینے کا واقعہ بیان کیا اس پر اللہ تعالی نے یہ۔۔۔
مزید
جہنی۔ اور بعض لوگ ان کو نہدی کہتے ہیں۔ روایت ہے کہ نبی ﷺ نے انھیں ایک خط لکھا تھا انھوں نے اس خط سے اپنے ڈول میں پیوند لگایا تو ن سے ان کی بیٹ نے کہا کہ تم نے (بہت برا کام کیا) سردار عرب کے خط کو لے کے اپنے ڈول میں پیوند لگایا پھر (مسلمانوں سے اور ان سے لڑائی ہوئی اور) ان کو شکست ہوگئی اور جس قدر مال ان کا تھا قلیل اور کثیر سب ان سے لے لیا گیا بعد اس کے یہ مسلمان ہو کر آئے تو نبی ﷺ نے فرمایا کہ غنیمت کے تقسیم ہونے سے پہلے تم اپنا جس قدر مال شناخت کرو لے لو۔ ان کا تذکرہ تینوں نے لکھا ہے۔ (اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)۔۔۔
مزید