آپ اعظم و اشہر و اکبر خلفاء تھے۔ ذات نداف۔ صورت و سیرت میں بعینہ حضرت میاں صاحب علیہ الرحمۃ کے مشابہ تھے۔ چونکہ فنافی الشیخ کے مقام میں تھے۔ اس لیے آپ کی صورت حضرت صاحب سے بہت ملتی تھی۔ جو آپ کو دیکھتا تھا۔ کہتا تھا۔ کہ گویا میاں صاحب ہیں۔ آپ بوڑیہ کے صاحب ولایت اور تہجد گزار تھے۔ مراقبہ کی ایسی مشق تھی کہ صبح سے بیٹھ کر گیارہ بجے اٹھتے تھے۔ سکرت اور استغراق مرشد پاک کے مشابہ تھے۔ درود شریف اور اللہ الصمد کثرت سے پڑھتے تھے۔ توجہ گرم تھی۔ ہتنی کنڈ میں حضرت میاں صاحب کے ساتھ مجاہدہ کیا۔ میاں صاحب قبلہ فرماتے تھے۔ کہ جب امیر اللہ شاہ بیعت ہوا۔ تو ہم نے اس سے کہا۔ کہ دنیا مطلوب ہے یا عقبےٰ۔ تو اس نے کہا کہ مجھے آخرت منظور ہے۔ سو اللہ تعالیٰ نے اسے درویشی دی۔ آپ سخی خلیق بے طمع تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ بوڑیہ میں جو رئیس سکھ رہتا تھا اس کی لڑکی پر جن کا اثر تھا۔ اس بے کہلا بھیجا کہ میں آپ کے۔۔۔
مزید
ولادت با سعادت: حضرت مولانا خاندان غلویہ سے قندھار کے رہنے والے تھے۔ اپنی والدہ محترمہ کی جانب سے علوی تھے۔ آپ کا تولد شریف ۱۱۹۸ھ میں ہوا۔ سترہ سال کی عمر میں اپنے والد بزرگوار کی اجازت سے علوم ظاہری کی تحصیل کے لیے سفر اختیار کیا۔ دو سال کابل میں اور سات سال پشاور میں رہے۔ پھر دہلی میں وارد ہوئے۔ اور حضرت شاہ غلام علی قدس سرہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ شاہ صاحب نے فرمایا کہ جس طرح علوم ظاہری میں شاغل رہ کر فاضل ہوئے ہو۔ بحر معارف باطنی میں موج زن ہوجاؤ۔ عرض کیا کہ خوب۔ لیکن چونکہ ابھی علوم ریاضی وغیرہ کا شوق جوش زن تھا۔ دہلی سے روانہ ہوکر رامپور روہیلوں میں پہنچے۔ وہاں مفتی شرف الدین صاحب کی زیارت سے مشرف ہوئے۔ مفتی صاحب نے فرمایا کہ تعلیم میں کوتاہی نہ ہوگی۔ مگر سکونت کے لیے کوئی مکان تلاش کرلو۔ اس لیے آپ شہر میں ادھر اُدھر پھرے۔ مگر کوئی مکان آمدو رفت عام سے خالی نہ پایا۔ اس لیے بیرو۔۔۔
مزید
ولادت با سعادت: آپ حضرت عروۃ الوثقیٰ کے پانچویں فرزند ہیں۔ آپ کی ولادت با سعادت بقولے ۱۰۴۹ھ میں اور بقول مصنف روضہ قیومیہ ۱۰۵۵ھ میں بمقام سرہند ہوئی۔ آپ علوم ظاہری و باطنی اور کمالات صوری و معنوی اور زہد و تقویٰ و اتباع سنت کے جامع تھے۔ حضرت عروۃ الوثقیٰ آپ کے علو استعداد دیکھ کر ہر دم آپ پر خاص نظر عنایت رکھتے تھے۔ چنانچہ آپ نے عین ایّام شباب میں اپنے والد بزرگوار سے تمام کمالات مجددیہ کے حصول کی بشارت پائی۔ حق گوئی: سلطان وقت اورنگزیب عالمگیر نے حضرت خواجہ محمد معصوم قدس سرہ سے التجا کی کہ اپنا کوئی خلیفہ میری ہدایت و توجہ کے لیے روانہ فرمائیں۔ اس پر حضرت نے اپنی قیومیت کے پینتالیسویں سال اسی صاحبزادے کو دہلی میں بھیج دیا۔ جب حضرت شیخ وہاں پہنچے تو سلطان نے ان کا استقبال کیا اور بڑے اعزاز و اکرام سے ان کو شہر میں لایا اور قلعہ میں لے گیا۔ جب آپ قلعہ کے دروازے پر پہنچے تو دو۔۔۔
مزید
حضرت خواجہ ابو محمد چشتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ آں از قید زمان ومکان آزاد، ومدام دروصل دوست خرم وشاد، خوکردہ جمال محمدی، پروردہ کمال احمدی، منزہ از طمطراق زیب وزشتی، ولی مادرازد، حضرت خواجہ ابو محمد چشتی قدس سرہٗ کرامات وخوارق میں مشہور اور نسبت تجلیات ذات میں معروف تھے۔ آپ بڑے بلند مرتبہ بزرگ اور عظیم الشان درویش تھے۔ آپ کا لقب ناصح الدین ہے۔ آپ اپنے والد ماجد حضرت خواجہ ابو احمد چشتی قدس سرہٗ کے مرید وخلیفہ تھے۔ سیرا لاولیاء میں لکھا ہے کہ آپ ذوق وشوق اور غایت مجاہدہ کی وجہ سے نماز معکوس ادا کرتے تھے۔ آپ کے گھر میں ایک کنواں تھا جس میں لٹک کر آپ یہ نماز ادا کرتے تھے۔ آپ کی والدہ ماجدہ فرماتی ہیں کہ چار ماہ حمل کے بعد آپ اندر سے کملہ طیبہ کی آواز سنتی تھیں۔ ایک دن میں اس کےو الد کے ساتھ بیٹھی تھی۔ انہوں نے میرے حمل کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا السلام علیکم یا ولی اللہ وخلیفتی (السلام علیکم ولی۔۔۔
مزید
حضرت سید شاہ جمال لاہوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ آپ حسینی سادات میں سے تھے،شجرہ مرشدی آپ کا حضرت بہا ء الدین زکریا ملتانی رحمتہ اللہ علیہ سے اس طرح ملتا ہے کہ حضرت شاہ جمال مرید شیخ ککو ابیگ رحمتہ اللہ علیہ کے ،وہ شاہ شرف رحمتہ اللہ علیہ کے،وہ شاہ صد رالدین کے رحمتہ اللہ علیہ، وہ حضرت شیخ بہاء الدین زکریا ملتانی سہروردی رحمتہ اللہ علیہ کے، وہ حضرت شہاب الدین سہروردی رحمتہ اللہ علیہ کے،وہ حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ کے، وہ حضرت سری سقطی رحمتہ اللہ علیہ کے، وہ حضرت معروف کرخی رحمتہ اللہ علیہ کے ،وہ حضرت حبیب عجمی رحمتہ اللہ علیہ کے ،وہ حضرت داؤد طائی رحمتہ اللہ علیہ کے، وہ حضرت خواجہ حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ کے اور وہ حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہ کے۔آپ نہایت جامع کمالات بزرگ تھے،ہز ارہا غیر مسلم آپ کے ہاتھوں دائرہ اسلام میں داخ۔۔۔
مزید
حضرت قاضی ہدایت اللہ مشتاق مٹیاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سندھی زبان کے نامور انشاء پرداز مولانا قاضی ہدایت اللہ بن محمود بن محمسد سعید صدیقی ۱۲۸۶ھ/ ۱۹۶۹ء کو مردم خیز شہر مٹیاری(ضلع حیدرآباد) میںتولد ہوئے۔ آپ کے جد اعل۹یٰ مخدوم فیروز ٹھٹوی مکہ مکرمہ میں ۸۷۵ھ کو تولد ہوئے اور ۹۰۱ھ کو جام نظام الدین سمہ کے عہد حکومت میں سندھ تشریف لے آئے اور یہیں زندگی رشد و ہدایت میں بسر کی آخر انتقال کیا اور مکلی میں مدفون ہوئے۔ قاضی مشتاق کا ۳۶ ویں پشت میں نسب کا سلسلہ امیر المومنین خلیفۃ المسلمین جانشین مصطفی ، یار غار حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہٗ سے ملتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ آپ صدیقی ہیں کہ کہ میمن ، جیسا بعض نے گمان کیا ہے۔ تعلیم و تربیت : ابتدائی تعلیم مٹیاری میں حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم کے لئے مشہور و معروف درسگاہ جامع مسجد مائی خیری حیدرآباد میں داخلہ لیا اور علامۃ الزمان حضرت مولانا م۔۔۔
مزید
حضرت ابو سعید چشتی دست رسول رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ آپ شیخ نور الدین بن شیخ عبدالقدوس کے بیٹے تھے اور شیخ نظام الدین بلخی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفۂ اعظم تھے پہلے آپ اپنے دادا شیخ عبدالقدوس گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید ہوئے اُن کی وفات کے بعد بلخ میں چلے گئے اور وہاں شیخ نظام الدین کی خدمت میں رہ کر تکمیل پائی۔ مراۃ الاسرار اور سواطع الانوار(اقتباس انوار) کے مصنفین لکھتے ہیں کہ ایک شخص درویشوں کے کمالات کا منکر تھا جس بزرگ کے پاس جاتا کہتا میں طالبِ خدا ہوں محنت و ریاضت میں نہیں کرسکتا مجھے کوئی ایسا بزرگ چاہیے جو اپنی ایک نگاہ سے سب کچھ سکھادے وہ مختلف بزرگوں سے ہوتا ہوا شیخ ابو سعید چشتی کے پاس آیا آپ کے ہاتھ میں اُس وقت ایک ڈنڈا تھا آپ نے فرمایا آتجھے میں اِس ڈنڈے سے خدا تک پہنچاتا ہوں یہ کہہ کر آپ نے ایک ڈنڈا اس کے سر پر مارا عالم ملکوت اُس پر ظاہر ہوگیا دوسرا مارا تو عالمِ جبروت ظ۔۔۔
مزید