مولانا میاں نور اللہ بن محمد ابراہیم ہیسبانی گوٹھ بھاگو دیرہ (تحصیل کنڈیارو) کے نزد سندھو دریا کے کنارے (لب مہران) اپنے آبائی گوٹھ ’’دیھ لدھو بشارت) میں ۱۹۰۳ء کو تولد ہوئے۔ تعلیم و تربیت: ابتدائی تعلیم اپنے گوٹھ کے نزد ’’سیال گوٹھ‘‘ میں حاصل کی ۔ بچھری (ضلع نواب شاہ) کے عالم مولانا سید نور محمد شاہ کے پاس بھی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد مدرسہ دار الفیوض گوٹھ کور سلیمان (تحصیل قمر ضلع لاڑکانہ) میں داخلہ لے کر مولانا عبدالکریم کورائی کے پاس نصاب کی تکمیل کے بعد فارغ التحصیل ہوئے۔ بیعت: سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں حضرت خواجہ عبدالرحمن جان سرہندی قدس سرہ (ٹکھڑ) کے ہاتھ پر بیعت ہوئے۔ درس و تدریس: والد کے انتقال کے بعد آبائی گوٹھ کو ترک کرکے گوٹھ غھارو خان ہیسبانی (تحصیل کنڈیارو) میں رہائش اختیار کی بعد میں یہ گوٹھ آپ کے نام ’’گوٹھ مولوی نور ال۔۔۔
مزید
’’فتاویٰ عالمگیری ‘‘ کkے موٗلفین کی کمیٹی میں سے ایک سندھی عالم و فقیہ علامہ سید نظام الدین ٹھٹھوی بھی تھے۔ سلسلہ نسب یوں ہے: سید نظام الدین بن سید نور محمد بن سید نظام الدین اول بن سید نور محمد بن سید شکر اللہ ثانی بن سید ظہیر الدین و الاسلام عرف سید جادم اول بن علامہ قاضی سید شکر اللہ اول بن سید وجیہہ الدین بن سید نعمت اللہ بن سید عرف شاہ بن سید امیر نسیم الدین محمد المعروف بہ میرک شاہ بن امیر عطاء اللہ جمال الدین المحدث بن سید فضل اللہ بن سید میر عبدالرحمن بن سید عبداللطیف حسینی اسنکی شیرازی ۔ ان کے اجداد شیراز میں رہتے تھے بعد میں ہر ات میں رہنے لگے ۔ جہاں سے قاضی سید شکر اللہ اول بن سید وجیہہ الدین ۹۰۶ ھ کو قند ھار (افغانستان ) تشریف لائے۔ قاضی سید شکر اللہ نے قند ھار میں اکیس برس تک قیام کیا، اس کے بعد مرزا شہ بیگ ارغون کے ایما پر بسلسلہ تجارت ۱۹۲۷ء کو ۔۔۔
مزید
حضرت مولانا آخوند محمد صالح بن چھٹو بھٹی ضلع دادو کے قدیم شہر سیتا ولیج عرف رحمانی نگر ( اسٹیشن ) میں تولد ہوئے۔ تعلیم و تربیت : چھٹوبھٹی نے اپنے بیٹے کو شروع سے دینی تعلیم دلوائی ۔ پہلے اپنے گھر میں ، اس کے بعد مکتب میں، اس کے بعد سندھ کی عظیم دینی درسگاہ ہمایون شریف تعلیم کیلئے بھجوایا۔ امام العلماء سید الاتقیاء حضرت علامہ مفتی عبدالغفور ہمایونی ؒ کی خدمت سراپا فیض میں رہ کر محمد صالح نے علوم دین کی تعلیم حاصل کی۔ دوران تعلیم پہلے والد اس کے بعد والدہ نے انتقال کیا۔ محمد صالح کو اس لئے اطلاع نہیں دین گئی تاکہ تعلیم کا سلسلہ نہ ٹوٹے ۔ لیکن اسے کسی ذریعے سے معلوم ہو گیا وہ اس عظیم و شدید صدمہ سے دو چار ہوا، یتیمی کے صدمہ نے اندر پاش پاش کر دیا۔ اپنے گوٹھ واپس آئے۔ کچھ دنوں کے بعد احساس ہوا کہ غم منانے سے جانے والے واپس نہیں آتے ، یہ دنیا فانی ہے، یہاں ہمیشہ کسی کو رہنا ن۔۔۔
مزید
مولانا حکیم حافظ نذر محمد بن قاضی حکیم عبدالرحمن سومرو نے آبائی گوٹھ دیہات ( تحصیل کنڈیاروضلع نوشہرو فیروز ) میں ۱۳۰۴ھ کو تولد ہوئے۔ مولانا عبدالرحمن زہد و ورع ، قناعت و توکل میں یگانہ روزگار تھے ، عالم باعمل اور صاحب برکت بزرگ تھے ۔ آپ کا مدرسہ علم و شریعت کا ایک سر چشمہ تھا۔ جہاں سے بے شمار طالبان شریعت نے اکتساب فیض کیا۔ تعلیم و تربیت: قاضی نذر محمد نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد کے زیر سایہ انہی کے مدرسہ میں حاصل کی۔ سندھی و فارسی کیساتھ قرآن مجید حفظ کی دولت سے مالا مال ہوئے۔ اسکے بعد گوٹھ محبت دیرو سیال اور گوٹھ سیٹھار جا کے مدارس میں عربی کی مختصر تعلیم حاصل کی، اس کے بعد والد ماجد نے جلد ہی اپنے پیر خانہ درگاہ مجددیہ ٹنڈو سائینداد کے مدرسہ دارالارشاد میں داخل کر وادیا۔ ان دنوں مدرسہ دارالارشاد میں مولانا میاں عبدالقیوم بختیار پوری مسند نشین تھے۔ اور مولاناآغا عبداللہ جا۔۔۔
مزید
آپ کا تعلق سندھ کی نظامانی بلوچ قوم سے ہے بڑے عالم عارف اور عاشق رسول ﷺ تھے۔ آپ کے علم کا شہرہ پورے سندھ میںپھیلا ہوا تھا۔ جس کی وجہ سے دور دور سے آپکے پاس فتویٰ آیا کرتے تھے۔ آپ کو حضور سرکار دو عالم فخر موجودات ﷺ سے اس قدر محبت تھی کہ جب بھی حضور ﷺ کا نام نامی اسم گرامی سنتے تو آنکھوں سے اشک جاری ہو جایا کرتے تھے ایک بار کا ذکر ہے کہ آپہکے پاس ایک فتویٰ آیا جس میں ’’محمد‘‘ نامی شخص کو کسی جرم کی سزا سنائی گئی تھی اور آپ نے اس پر تصدیق کرنی تھی ۔ جب آپ نے فتویٰ دیکھا تو آپ کی طبیعت غیر ہوگئی اورروتے ہوئے فرمایا کہ جس کا نام محمد ہو اس کو کبھی سزا ہو ہی نہیں سکتی۔ آپ کے شاگردوں میں سے حضرت مناظر اسلام علامہ پیر غلام مجدد جان سر ہندی فاروقی ؒ ماتلی والے کا نام قابل ذکر ہے۔ آپ کو تیرہویں صدی ہجری کے اولیاء و علماء میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ آپ کا مز۔۔۔
مزید
استاد العلماء مولانا علامہ نذر محمد ساکن بھونگ شریف (تحصیل صادق آباد) ایک عظیم المرتبت عالم دین، علم منطق و معانی کے بڑے ماہر تھے۔ تاریخ ماہ سن اور مقام ولادت معلوم نہ ہوسکا۔ تعلیم و تربیت: چھوٹی عمر میں اپنے گوٹھ سے باہر مال و مویشی چرارہے تھے کہ اس طرف عارف باللہ حضرت علامہ مولانا محمد ابراہیم بھیو علیہ الرحمۃ ساکن گوٹھ سرحد ضلع گھوٹکی کا گزر ہوا ان کی نگاہ کیمیا اثر اس لڑکے پر پڑی اور اسے علم دین حاصل کرنے کی ترغیب دلائی تو نذر محمد نے تمام مال مویشی وہیں چھوڑ کر مولانا سرحدی صاحب کے ساتھ چل پڑے اورع ان کے مدرسہ میں داخل ہوگئے اور رات دن حصول تعلیم میں لگ گئے۔ اور ان پر لنگر کے کام کی ذمہ داری بھی ڈال دی گئی اور پھر وہ اپنے استاد محترم کے گھریلو کام بھی کیا کرتے تھے۔ مولانا نذر محمد فارسی پڑھنے لگے۔ لیکن دوسرے کاموں کی وجہ سے پریشان رہتے کیونکہ وہ حصول علم میں زیادہ وقت نہ۔۔۔
مزید
حضرت سید علی شاہ بخاری علیہ الرحمۃ نے مختلف ممالک کی سیاحت کے بعد قندھار (افغانستان) میں سکونت اختیار کی ان کے تین فرزند تھے۔ ۱۔ سید اسد اللہ شاہ بخاری ۲۔ سید عبدالحمید شاہ بخاری ۳۔ سید عبدالجبار شاہ آخر ذکر کا بچپن میں انتقال ہوا۔ اول و دوم نے اپنے والد صاحب کے انتقال کے بعد سندھ کے ایک دیہات خان گڑھ (موجودہ نام جیکب آباد سندھ) ہجرت کرکے مستقل سکونت اختیار کی۔ حضرت سید اس اللہ شاہ بخاری المعروف پیر بخاری علیہ الرحمۃ (متوفی ۱۲۷۷ھ) جیکب آباد میں ایک مسجد شریف کی تعمیر کرائی ، وہیں دین کی خدمت میں زندگی بسر کی۔ آج بھی آپ کا مزار شریف جیکب آباد شریف میں جا۔۔۔
مزید
پیر طریقت حضرت مولانا سید نجی اللہ شاہ بن حضرت مولانا پیر سید نور الحق شاہ راشدی ۲۶ ، جون ۱۸۹۳ئ؍ ۱۴، صفر ۱۳۱۳ھ درگاہ پیر جو کوٹ ( نور آباد) نزد و گن ( تحصیل وارہ ضلع لاڑکانہ سندھ ) میں تولد ہوئے۔ مولانا پیر سید نور الحق شاہ کے روحانی فیض کی چمک سندھ کے علاوہ بلوچستا ن تک پھیلی ہوئی ہے خود خان آف قلات بھی ان کے خاص معتقد تھے۔ تعلیم و تربیت: آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد سے حاصل کی اس کے بعد علاقہ کے مختلف علماء کی خدمات حاصل کی۔ مولانا کریم داد چانڈیو، مولانا غلام عمر چانڈیو(گوٹھ قائم خان تحصیل قمبر) اور گڑھی محمد حسن کرٹیہ کے مدرسہ میں بھی تعلیم حاصل کی۔ مولانا غلام رسول عباسی (مہتمم مدرسہ دارالفیوض متصل اللہ والی مسجد لاڑکانہ شہر) سے بیڑو چانڈیو میںمولانا سید محمد حسن شاہ عودی (سکھر) سے اور آخر میں مولانا میر محمد جاگیرانی (نورنگ واہ تحصیل قمبر) سے بقیہ کتب پڑھ کر فارغ الت۔۔۔
مزید
استاد الکل ، عارف صمدانی ، حضرت علامہ مخدوم نور محمد عرف مخدوم محمد آریجوی گوٹھ خیر محمد آریجہ ( تحصیل ڈوکری ضلع لاڑکانہ) میں ۱۱۳۰ھ؍۱۷۱۸ء کو تولد ہوئے۔ ان دنوں سندھ پر کلہوڑوں کی حکمرانی تھی ۔ تعلیم و تربیت : مخدوم نور محمد نے ابتدائی تعلیم آبائی گوٹھ کے مدرسہ میں حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم کیلئے لاڑکانہ شہر کے مدرسہ جامع مسجد محلہ سرہیہ میں داخلہ لیا اور علامہ شیخ ابن یامین ؒ سے نصاب مکمل کر کے فارغ التحصیل ہوئے۔ درس و تدریس: مخدوم نور محمد مانے ہوئے عالم دین ، اعلیٰ مدرس ، فقیہ ، محدث ، لاثانی حکیم ، مفسر ، مبلغ، مصنف ، شاعر اور سب سے بڑھ کر کہ عاشق رسول ﷺ تھے۔ صرف سندھ نہیں بلکہ پنجاب ، افغانستان ، بلوچستان ، قلات ، ایران ، خلیج کی ریاستیں اور مصر وغیرہ سے طلباء آپ کی خدمت میں استفادہ کے لئے آتے تھے۔ آپ تدریس کے بادشاہ تھے اور اسی حوالہ سے شہرت رکھتے تھے۔ تدریس کے شعبہ م۔۔۔
مزید
حضرت علامہ محب علی سندھی کے حالات زندگی کے متعلق روایات میں اختلاف ہے۔ ملا عبدالحمید لاہوری کا بیان ہے کہ ’’سب سے پہلے مولانا محب علی کے جد بزرگوار علی بیگ ، بابر بادشاہ کے ساتھ آئے اور افغانوں کی جنگ میں شہید ہوئے۔ ‘‘ اگر یہ بیان درست ہے تو سمجھنا چاہئے کہ علی بیگ نے ۱۵۲۴ء اور ۱۵۲۶ء کے درمیان پنجاب کی کسی جنگ یا پانی پت کے میدان میں لڑتے ہوئے جان دی ہو گی ، لیکن ماثر رحیمی میں مولانا کے جد بزرگوار کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ عبدالباقی نہاوندی کے ماثر رحیمی اور خوشگو کے سفینہ میں مولانا کے والد کا نام مولانا حیدر علی مرقوم ہے۔ قرائن بھی موید ہیں اس لئے کہ مولانا محب علی ، مصنف ماثر رحیمی کے دوست اور رفیق خاص تھے، اس لئے ان کی روایات زیادہ قابل اعتبار ہیں ۔ مولانا کے والد اگر مرزا باقی ترخانی کے عہد میں آئے تو یہ واقعہ سن ۹۷۵ھ؍ ۶۸۔۱۵۶۷ء کے بعد کا سمجھنا چاہئے۔ مولا۔۔۔
مزید