جمعرات , 27 جمادى الآخر 1447 ہجری (مدینہ منورہ)
/ Thursday, 18 December,2025

سیّدنا عون ابن جعفربن ابی طالب رضی اللہ عنہ

   بن عبدالمطلب۔قریشی ہاشمی۔ان کے والد حضرت جعفرطیارتھےجن کا لقب ذوالجناحین ہے یہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدمیں پیداہوچکے تھے۔ان کی والدہ اور ان کےدونوں بھائیوں عبداللہ اورمحمدکی والدہ اسماء بنت عمیس خثعمیہ تھیں۔تسترمیں شہیدہوئے تھے۔ان کی کوئی اولاد نہ تھی۔عبداللہ بن جعفر نے روایت کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عون سے فرمایاتھاکہ تم سیرت وصورت دونوںمیں میرے مشابہ ہومگردراصل یہ کلمہ آپ نے جعفر بن ابی طالب سے فرمایاتھا۔ان کا تذکرہ تینوں نے لکھاہے۔ (اسد الغابۃ جلد بمبر 6-7)۔۔۔

مزید

سیّدنا غنی ابن قطیب رضی اللہ عنہ

   فتح مصرمیں شریک تھے۔ان کاتذکرہ صحابہ میں کیاگیاہےمگران کی کوئی روایت معلوم نہیں ہوتی۔یہ ابوسعید بن یونس کاقول ہے۔ان کا تذکرہ ابن مندہ اورابونعیم نے مختصر لکھاہے۔ (اسد الغابۃ جلد نمبر 6-7)۔۔۔

مزید

سیّدنا غضیفابن حارث رضی اللہ عنہ

   کندی ۔بعض لوگ ان کو سکونی اوربعض ازدی کہتےہیں۔زنیم ثمالی کے بیٹے ہیں۔ان کا شماراہل حمص میں ہے کنیت ان کی ابواسماء ہے۔سب لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ یہ ثمالی ہیں پس یہ ازدی بھی ہونگےکیونکہ ثمالہ قبیلۂ ازد کی ایک شاخ ہےاوربعض لوگ ان کا نام غطیف بیان کرتے ہیں۔ہمیں ابویاسر بن ابی حبہ نے اپنی سند کے ساتھ عبداللہ بن احمد سے نقل کرکے خبردی وہ کہتے تھےمجھ سے میرے والد نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے حماد بن خالد نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے معاویہ بن صالح نے یونس بن سیف سے انھوں نے غضیف بن حارث سے روایت کرکے بیان کیا کہ وہ کہتےتھے جوباتیں میں بھول گیاوہ بھول گیامگریہ مجھے خوب یادہے کہ میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ نمازمیں اپنا داہناہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھتےتھے۔اورعلاء بن یزید ثمالی نے غضیف سے روایت کی ہے کہ وہ کہتےتھے کہ میں بچہ تھاانصارکے (باغوں میں جاکران کے) چھوہارےکے درخ۔۔۔

مزید

طاشکبری زادہ

           احمد بن مصطفیٰ الشہیر بہ طاشکبری زادہ صاحب شقائق نعمانیہ: ماہِ ربیع الاول ۹۰۱؁ھ میں پیدا ہوئے،جب سن تمیز کو پہنچے تو انقرہ میں تشریف لیجاکر قرآن شریف کو پڑھنا شروع کیا اور اس وقت آپ کے باپ نے آپ کی کنیت ابی الخیر اور لقب عصام الدین رکھا پھر بروسا کو گئے جہاں بعض کتب صرف ونحو علاء الدین یتیم سے پڑھیں پھر جب آپ کے چچا قوام الدین قاسم بن خلیل بروسا کے مدرس ہوکر آئے تو آپ ان سےپڑھنے لگے چنانچہ بعض کتب نحو ومنطق کی ان سے پڑھیں بعد ازاں آپ کے باپ قسطنطنیہ سے بروسا میں آئے اور ان سے آپ نے باقی علوم پڑھ کر فضیلت و کمالیت کا درجہ حاصل کیا اور محمد تونسی سے کچھ پارہ صحیح بخاری کا پڑھا اور انہوں نے اپنی تمام مسموعات کی جو شہاب الدین احمد بکری تلمیذ حافظ ابن حجر سے حاصل کی تھیں،آپ کو اجازت دی۔ماہ رجب ۹۳۳؁ھ میں آپ قسطنطنیہ میں مدرس مقرر ہوئے ۔۔۔

مزید

شیخ نور الحق

                شیخ نور الحق شیخ عبد الحق دہلوی: فقیہ محدث،جامع کمالات صوری و معنوی،فاضل متجر،عالم ماہر تھے اور تلمیذ و مرید و مقبول اپنے والد بزرگو اریگانۂ روزگار کے تھے،چونکہ صاحبقراں شاہ جہاں ایام  شاہزادگی سے آپ کے جوہر استعداد عالی سے اطلاع رکھتا تھا۔جب دکھن کو جانے لگا تو آپ کو اکبر آباد کا قاضی مقرر کرگیا چنانچہ آپ نے ایک مدت تک قضاء کے منصب کو جیسا کہ چاہئے،ادا کیا۔ تصانیف بھی آپ نے کثرت سے کی اور جس طرح آپ کے والد ماجد نے ترجمہ مشکوٰۃ شریف میں احسان کا ہاتھ کھولا تھا ویسا ہی آپ نے ترجمہ فارسی صحیح بخاری میں صلائے فیض عام دیکر تیسیر القاری فی شرح صحیح البخاری اور نیز شرح صحیح مسلم تصنیف کی اور نوّے سال کی عمر میں ۱۰۷۳؁ھ میں دہلی میں وفات پائی۔’’شیخ الاسلام‘‘ تاریخ وفات ہے۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔

مزید

میر زاہد  

              میر زاہد بن قاضی محمد اسلم ہروی کابلی: فاضلِ اجل،عالم متجر،منطقی، صاحب ذہن ثاقب فکر صائب،تدقیق میں سابقین کے گوئے سبقت لے گئے تھے۔ہندوستان میں پیدا ہوئے،علوم اپنے باپ اور دیگر فضلائے ہندسے حاصل کیے۔۱۰۶۲؁ھ میں آپ کو شاہ جہان نے محرر وقائع کابل کی صدارت آپ کو سپرد ہوئی جہاں آپ نے  ہنگامہافادہ کا گرم کیا اور بہت سے طلبہ علم نے آپ سے فیض حاصل کیا،آپ کی تصنیفات سے حاشیۂ شرح مواقف اور محقق دوانی کی تہذیب کی شرح اور حاشیہ تصوف و تسدیق  مصنفہ قطب رازی اور حاشیہ شرح ہیا کل یادگار ہیں۔وفات آپ کی۱۱۰۱؁ھ میں ہوئی۔’’فاضلِ بے مقابلہ‘‘ تاریخ وفات ہے۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔

مزید

  محمد عبد الشکور پتلو

              ملا عبد الشکور پتلو: جامع علوم عقلیہ و نقلیہ۔،صاحب درع و تقی تھے، جوانی میں تحصیل علوم میں مشغول ہوکرخواجہ حیدر چرغی وغیرہ فضلاء سے استفادہ کیا اور تھوڑی سی مدت میں حقائق و دقائق علوم میں فائز ہوئے،اکثر درس منقولات اور فقہ میں اشتغال رکھتے تھے۔بادشاہ عالمگیر نے جو روپیہ واسطے علمائے کاشمیر کے بھیجا تھا اس میں آپ نے حصہ لینا قبو نہ کیا اور ۱۱۱۳؁ھ میں وفات پائی،ملا محمد اشرف نے جو آپ کے استاد زادہ کے شاگرد ہیں،آپ کے مرثیہ میں بہ زبان عربی ایک قصیدہ کہا ہے جس میں تاریخ وفات آپ کی ’’لامات بوفاتہ علوما‘‘ لکھی ہے۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔

مزید

صاحب شامی  

              سید محمد امین بن عمرو الشہیر بابن العابدین: اپنےز مانہ کے علامہ،فہامہ، فقیہ محدث،محقق مدقق،جامع علوم عقلیہ ونقلیہ تھے،علوم سید  شیخ سعید حلبی اور شیخ ابراہیم حلبی سے پڑھے اور حدیث و فقہ کی سندیں حاصل کیں اور ۱۲۴۹؁ھ میں کتاب رد المختار شرح در المختار المعروف بہ شامی تصنیف کی جو ایسی مقبول انام ہوئی کہ باوجود پانچ مجلد ضخیم ہونے کے دو دفعہ مطبوع ہوکر مشہتر ہوئی ہے علاوہ اس کے رسالہ سل الحسام الہندی لنصرۃ مولانا خالد النقشبندی اور رسالہ شفاء العلیل دہل العلیل نے حکم الوصیۃ بالختمات التہالیل اور تکملہ تصنیف فرمائے اور آپ کے رسالہ شفاء العلیل پر علامہ طحطاوی وغیرہ فقہاء نے تقریظین لکھیں اور اس کی بہت تعریف کی۔ وفات آپ کی ۱۲۶۰؁ھ کو اپنے ہاتھ سے نقل کی ہے تو اس مین آپ کو مرحوم کے لفظ سے ذکرکیا ہے۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔

مزید

شیخ علی بن بندر ابن حسین صونی صیرفی

  آپ کی کنیت ابوالحسن اور نیشا پور کے مشائخ میں سے تھے، آپ حضرت سیّد الطائفہ جنید بغدادی، رویم، سمنون اور ابن عطاء رحمۃ اللہ علیہم سے مجالس رکھتے تھے، آپ نے بہت سے مشائخ کی زیارت کی تھی، حدیث، تفسیر، فقہ میں ماہر تھے، ۳۵۹ھ میں وفات پائی۔ سرور ہر دو جہاں سر دفتر علمائے دین سالِ ترحیلش بود، ساجد علی ابن حسین ۳۵۹ھ   مقتدائے اولیاء زاہد علی متقی ہم رقم گشت از قلم زاہد علی صوفی ولی ۳۵۹ھ   (خزینۃ الاصفیاء)۔۔۔

مزید

خواجہ ہبیرۃ البصری رحمۃ اللہ علیہ کے حالات

  اماموں کے سردار، امت کے مقتدا شرلعیت کے معین و مدگار طریقت کے استاد، عارفین کے تاج سالکوں کے رہنما خواجہ ہبیرۃ البصری ہیں۔ آپ نے ارادت کا خرقہ خواجہ حذیفہ المرعشی کی خدمت سے حاصل کیا تھا۔ یہ واجب الاعتصام بزرگ علماء وقت کے مقتدا اولیاء زمانہ کے سرتاج تھے اور خدائے جل وعلا کی معرفت میں تمام مشائخ کبار کے درمیان انتہا سے زیادہ شہرت رکھتے تھے۔  آپ درجات رفیع اور مقامات عالی رکھتے اور  عمل فضل میں بے نظیر  اقتدار رکھتے تھے۔ (سیر الاولیاء)۔۔۔

مزید