آپ فاضل کبیر اور عالم با توقیر تھے، آپ کی ذات بابرکات چشمۂ فیض اور سر چشمہ علم و فضل تھی، سارے پنجاب میں ایک بھی ایسا عالم دین نہ تھا، جس نے آپ کے مدرسہ سے فیض حاصل نہ کیا ہو، اور آپ کے علم و فضل میں سارے پنجاب میں کوئی ثانی نہ تھا، ہزاروں اہل علم آپ سے پڑھ کر نکلے اور فضیلت علمیہ تک پہنچے۔ چوں غلام رسول طالب حق ارتحالش بگو چراغ ولی از جہاں شد بجنت والا ہم وگر کا شف الضحیٰ فرما (خذینۃ الاصفیاء)۔۔۔
مزید
آپ بصرہ کی عابدہ تھیں حضرت معاذ عدویہ کی مجلس میں شرکت کرتی تھیں، اللہ کے خوف سے اتنی روئیں کہ آنکھیں بے نور ہوگئیں، لوگوں نے پوچھا کہ نابینائی نے آپ کو کتنا دکھ دیا، بولیں اللہ سے محجوب ہونا اس درد سے زیادہ دردناک ہے، اقوال صحیحہ میں آپ کی وفات ۱۸۰ھ میں ہوئی تھی۔ چوں غفیرہ از جہاں پر فنا زندہ دل نیک است سن رحلتش ۱۸۰ھ رفت در جنت بعزو باکمال عابدہ محمود گو سالِ وصال ۱۸۰ھ (حدائق الاصفیاء)۔۔۔
مزید
آپ وقت کی عارقہ کاملہ تھیں، اس قدر عالم و فاضل تھیں کہ مجلس میں بیٹھتیں اور منہ پر پردہ ڈال کر نہایت خوش الحانی سے وعظ کہتیں وقت کے عابد، زاہد، عارف اور علماء آپ کی مجلس میں حاضر ہوتے اور آپ کے مواعظ سے مستفیض ہوتے کہتے ہیں کہ آپ دوراں وعظ بڑی رویا کرتی تھیں، لوگوں کو ڈر ہوا کہ کہیں بصارت سے محروم نہ ہوجائیں، آپ فرمایا کرتی تھیں دنیا میں اندھا ہونا بہتر ہے کہ قیامت کے دن نابینا اٹھا جائے، بوڑھی ہوئیں تو شیخ فیضل ابن عیاض آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ نے دعا کی التجا کی، آپ نے فرمایا: فیضل، کیا تمہارے اور اللہ کے مابین ایسا مسئلہ ہے جو میں دعا کروں تو قبول ہو، حضرت عیاض نے بات سن کر نعرہ مارا بے ہوش ہوگئے۔ بی بی شعوانہ کی وفات سکینۃ الاولیاء نے ۱۷۵ھ لکھی ہے۔ چو شعوانہ از دار دنیا برفت بتاریخ ترحیل آں نیک ذات شدہ زیب خلد اندر جناں نعیمہ۔ معینہ۔ یقینہ بخواں ۱۷۵ھ ۱۷۵ھ ۱۷۵۔۔۔
مزید
امیر المومنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی ایک خادمہ تھیں جن کا نام حضرت زاہدہ تھا، ایک دن یہ بی بی جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئیں اور سلام عرض کیا، حضور نے دیکھا اور فرمایا زاہدہ تم بہت دیر کے بعد آئی ہو، خیر تھی، کہنے لگیں، یا رسول اللہ! آج میں نے اللہ تعالیٰ کے عجائبات سے ایک عجیب و غریب واقعہ دیکھا ہے، حضور نے تفصیل دریافت کی تو کہنے لگی۔ ’’علی الصباح لکڑیاں لینے جنگل کی طرف نکل گئی، میں نے لکڑیوں کا ایک گٹھا اکٹھا کیا، باندھا اور ایک پتھر پر رکھا، میں نے دیکھا کہ ایک تیز رو سوار آسمان سے اتر رہا ہے، اس نے میرے پاس آکر مجھے سلام کیا، اور کہنے لگا کہ حضور کی خدمت میں حاضر ہوکر میرا سلام کہنا، اور عرض کرنا کہ رضوان کلید بردار بہشت نے کہا ہے کہ آپ کو مبارک ہو کہ آپ کی اُمت کو جنت میں داخل ہونے کے لیے تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہ۔۔۔
مزید
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی افضل اور اکرم بیٹی حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا تھیں، کنیت ام محمد۔ لقب مبارک طاہرہ، اذکیہ، راضیہ، مرضیہ اور بتول تھا اگرچہ حضرت فاطمہ حضور کی سب سے چھوٹی بیٹی تھیں، مگر جتنی محبت اور الفت آپ کو اس بیٹی سے تھی۔ دوسری کسی بیٹی سے نہیں تھی، حضرت علی کرم اللہ وجہہ غزوہ بدر سے واپس آئے تو حضور کی بارگاہ میں حضرت فاطمہ کے رشتہ کی درخواست کی، اس وقت سیدہ کی عمر پندرہ سال تھی، آپ کی درخواست قبول ہوئی، اللہ تعالیٰ نے آپ کے بطن سے تین لڑکے، حسن، حسین اور محسن دیے (رضی اللہ عنہم) تین بیٹیاں اُم کلثوم، زینب اور رقیہ ہوئیں (رضی اللہ عنہن) محسن اور رقیہ تو خورد سالی میں ہی فوت ہوگئے، حضرت زینب عبداللہ جعفر سے بیاہی گئیں، حضرت ام کلثوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے نکاح میں آئیں حضرت فاطمہ کی اولاد جو آج تک موجود ہے۔ وہ حسن و حسین رضی الل۔۔۔
مزید
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ کی بیٹیوں میں افضل ترین بیٹی حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہراء تھیں، اور معمر ترین حضرت زینب تھیں مگر ہم سن وصال کی ترتیب سے حالات تحریر کر رہے ہیں۔ (حدائق الاصفیاء)۔۔۔
مزید
آستانہ رضویہ مصطفویہ برھانیہ جبلپور ولادت حضرت مولانا محمد قاسم عبدالواحد شہید القادری تاج محمد قادری بن حاجی عبدالکریم چشتی ۱۴؍محرم الحرام ۱۳۶۲ھ؍۱۹؍جنوری ۱۹۴۳ء شب دو شنبہ بوقت ۱۲ بجے قصبہ ممبر کھا ضلع الیہ آباد میں پیدا ہوئے۔ خاندانی حالات مولانا محمد قاسم رضوی کے جد امجد حاجی عبدالکریم چشتی ۱۸۵۷ء میں بمعر ۱۹یا ۲۰ سال جبل پور تشریف لائے اور ایک سو اٹھارہ سال کی عمر میں انتقال کیا۔ جامع مسجد منٹری جبل پور کے بڑے قبرستان میں دفن ہوئے۔ مولانا محمد قاسم کے والد تاج محمد قادری نے ۱۳؍صفر المظفر ۱۳۹۹ھ شب یکشنبہ فجر بعمر ۸۵ سال انتقال فرمایا۔ یہ خاندان آج بھی مشہور اور وقار وعزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جو حضرت شیر علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی اولاد سے ہے۔ تعلیم وتربیت مولانامحمد قاسم رضوی کی تعلیم کا آغاز جمادی الاخریٰ ۱۳۸۱ھ؍۱۹۶۰ء کو جامعہ عربیہ ناگپور سے ہوا۔ ۱۹۶۵ء میں مولانا مشتاق احمد ر۔۔۔
مزید