احمد بن حسن بن احمد بن حسن انقروی: ۶۵۱ھ میں پیداہوئے،ابو المفاخر کنیت جلال الدین لقب اور قاضی القضاۃ خطاب تھا اور شہر انقرہ میں جو روم کے شہروں میں سے ایک شہر ہے،رہنے والے تھے۔فقہ اپنے باپ سے پڑھی،جامع کبیر اور زیادات کی شرح کو جو عتابی نے تصنیف کی ہے،فخر الدین عثمان بن مصطفیٰ ماردینی اور فرائض ابی العلاء کو شمس الدین محمود فرضی سے پڑھا۔قطب نے تاریخ مصر میں لکھا ہے کہ آپ جامع فضائل اور سخی اور ذی مرور اور حسن المعاشرت اور محب اہلِ علم تھے۔ جب سترہ سال کے ہوئے تودمشق کی قضاء آپ کے سپرد کی گئی جہاں آپ نے تدریس بھی کی،۷۳۰ھ میں مصر میں تشریف لائے،جب بیمار ہوتے تو کہتے کہ مجھ کو خواب میں آنحضرتﷺنے فرمایا ہے کہ توبڑی عمر کا ہوگا چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ آپ مارے بڑھاپے کے کوزہ پشت ہو گئے اور ۷۹۱ھ میں ایک سو بیالیس سال کی عمر میں و۔۔۔
مزید
تذکرہ نگاروں نے آپ کے مختلف نام لکھے ہیں، احمد بن محمد بن حسین، حسین بن محمد اور عبداللہ بن یحییٰ تھا، حضرت جنید بغدادی کے خلفاء کبار میں سے تھے، حضرت جنید بغدادی کی وفات کے بعد آپ ہی ان کے مسند ارشاد پر بیٹھے آپ فقہ تصوف اور علم اصول کے امام تھے حضرت شیخ سہیل تستری رحمۃ اللہ علیہ سے خاص اُنس رکھتے تھے۔ ایک دفعہ سارا سال مکہ مکرمہ میں قیام فرما ہوئے ازرۂ ادب نہ تو پاؤں پھیلائے نہ دیوار سے سہارا لیا، اور نہ سوئے۔ صاحب نفحات الانس نے آپ کی وفات ۳۱۲ھ میں لکھی ہے ایک تذکرہ نگار نے ۳۱۴ھ لکھی ہے، سفینۃ الاولیاء میں ۳۱۴ھ درج ہے، ہماری تحقیق میں بھی ۳۱۴ھ ہی صحیح ہے۔ آپ جنگ قرامطہ میں شریک تھے اور تشنگی کے غلبہ سے جاں بحق ہوئے۔ بو محمد شیخ پیر دستگیر بو محمد پیر تاریخش بگو ۳۱۴ یافت از عالم چوں حق اتصال ہم بخواں زندہ دلی سالک کمال ۳۱۴ھ۔۳۱۴ھ (خزینۃ الاصفیاء)۔۔۔
مزید
حضرت علامہ مسعود تفتزانی مسعود بن عمر بن عبداللہ تفتازانی: سعد الدین لقب تھا۔ ۷۲۲ھ شہر تفتازان واقع خراسان میں پیدا ہوئے۔علوم قطب اور عضد سے اخذ کیے یہاں تک کہ امامِ اجل،علامہ،فاضل،صرف ونحو معانی بیان کے عالم ماہر اور اصول مذہب و منطق وغیرہ کے عارف اکمل،استاذ علی الاطلاق،مشہور آفاق ہوئے۔مدت تک آپ امیر تیمور کی مجلس میں صدر الصدوررہے۔کفوی نے کہا ہے کہ آنکھوں نے آپ جیسا اعلام و اعیان میں کوئی نہیں دیکھا یہاں تک کہ سیّد شریف مبادی تالیف اور اثناء تصنیف میں آپ کے بحار تحقیق و تحریر میں غوطےمارتے تھے اور تدقیق و تسطیر کے موتی چُنتے اور آپ کی شان، جلالت و فضیلت کی تعریف کرتے تھے لیکن جب آپ کا اور سید شریف کا تیمور کی مجلس میں مباحچہ و منظرہ ہوا تو پھر باہم اتفاق ائم نہ رہا اور سید شریف آپ کے اقوال کی تردید میں ملتزم ہوئے۔بعض نے آپ کو حنفی المزہب اور بعض نے شافعی قرار دیا ہے مگر اس میں ک۔۔۔
مزید
عالم و عامل، فقیہہ کامل تھے علمِ حدیث و تفسیر میں بڑے معروف تھے، آپ نے تفسیر فتح الرحمان کے نام سے قرآن پاک کا اُردو (ہندی) ترجمہ بڑی فصاحت و بلاغت سے کیا تھا یہ تفسیر اُردو کی ابتدائی تفسیروں میں سے ہے جو بہت مقبول و محبوب خاص و عام ہوئی۔ آپ کی وفات ۲۴۲ھ میں ہوئی۔ جناب عبد قادر آنکہ علمش ولی منظور گو سال وصالش ۱۲۴۲ھ چومہ روشن شد از مہ تابہ ماہی دوبارہ جوز منظور الٰہی ۱۲۴۲ھ (خذینۃ الاصفیاء)۔۔۔
مزید
آپ خواجہ صالح محمد بن خواجہ عبدالخالق اویسی کے خلیفہ خاص تھے حضرت خواجہ محکم الدین اویسی قدس سرہ سے بھی فیض پایا تھا، اپنے والد کی وفات کے بعد مسند ارشاد پر جلوہ فرما ہوئے اور ایک عرصہ تک خلق خدا کو ہدایت کرتے رہے۔ آپ کی وفات ۱۲۴۱ھ میں بتاریخ چہارم جمادی الثانی کو ہوئی تھی شعرا میں سے ایک نے آپ کی وفات پر مصرع لکھا تھا ؎ آہ خالا خلق بے سلطان شد ۱۲۴۱ھ آپ کے فرزند ارجمند شیخ شہاب الدین سجادہ نشین اور شیخ غلام اویس تاہنوز (بجیات صاحب خزینۃ الاصفیاء) بقیدِ حیات ہیں، اللہ انہیں سلامت رکھے۔ چو سلطان ز دار الفتا بست رخت ز مخدوم سلطان عرفان بجو ۱۲۴۱ھ تو تاریخ ترحیل توصیل آن وگر نامور شیخ بالا بخواں ۱۲۴۱ھ (خذینۃ الاصفیاء)۔۔۔
مزید
آپ سیّد عبدالکریم بہاون شاہ قدس سرہ کے خلیفہ خاص تھے صاحبِ جذب و استغراق جذب و مستی تھے، خوارق و کرامت ظاہر ہوتیں، حالتِ جذب میں بتیس سال تک ایک جگہ قیام رہا، کھانا پینا ترک کردیا، ذکر نفی و اثبات کرتے تھے، در و دیوار شجر و حجر آپ کے ذکر میں شامل ہوتے۔ ایک دفعہ سرحد کے زمینداروں کے دو خاندانوں میں زمین کے معاملہ میں تنازعہ ہوگیا، دوسرا فریق زور آور بھی تھا اور سرکش بھی، چنانچہ انہوں نے چار سو کھاتے زبردستی اپنے قبضہ میں کرلیے اور حاکم وقت کے حکم سے برجیاں بطور نشان قائم کرلیں، مظولم فریق حضرت کے خدام میں سے تھے، وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور صورت حال بیان کی، آپ نے فرمایا: تمہاری زمین کا حق تمہیں دے رہا ہوں اور برجیوں کو اکھاڑ رہا ہوں، اور جہاں انصاف سے حق بنتا ہے وہاں نصب کر رہا ہوں چنانچہ دوسرے ہی دن غائب سے یہ برجیاں خود بخود اپنی جگہ پر نصب ہوگئیں، مخالفین نے پھر سرکشی کی زبر۔۔۔
مزید
آپ جامع اوراق (مولف خزینۃ الاصفیاء فارسی) کے جد امجد تھے آپ بڑے خدا پرست اور متبرک انسان تھے، رحیم و کریم اور عابد و زاہد تھے، طبیعت میں مسکینی اور مزاج میں انکساری پائی جاتی تھی، دنیاوی جاہ و جلال اور ظاہری شان و شوکت سے اجتناب کرتے تھے اپنی ہاتھ کی کمائی سے حلال کی روزی کماتے تھے اور محنت مزدوری کر کے روزی کمانے میں عار محسوس نہ کرتے تھے اپنی محنت کا چوتھا حصہ علیحدہ کرکے غرباء میں تقسیم کردیا کرتے تھے باقی تین حصے اہل و عیال میں خرچ کردیا کرتے ان کا یہ معمول تھا کہ آج کی کمائی کو کل کے لیے نہ رکھتے تھے، حافظ محمد آپ کے سگے بھائی تھے، بڑے مالدار اور خوشحال تھے، آپ کو اپنے پاس بلاتے اور کہتے کہ تم نے ہمارے خاندان کی عزت کو برباد کردیا ہے جو لوگ کل تک ہمارے محکوم تھے تم ان کے سامنے محنت مزدوری کرتے ہو اگر تم یہ کام چھوڑ دو، تو میں تمہارے سارے خاندان کے اخراجات بردا۔۔۔
مزید
آپ بارہ ظرخانی سادات میں سے تھے آپ کے مشائخ برگزیدہ روزگار تھے وہ خود متاخرین میں سے نہایت واجب الاحترام تھے، آپ بڑے عابد، زاہد، متقی اور خدا پرست تھے، اور صاحب جذب و استغراق تھے، ہر سلسلۂ تصوف سے حصۂ فقر حاصل کیا تھا آپ سلسلہ اعظمیہ قادریہ میں چند واسطوں سے نسبت روحانی رکتے تھے، حضرت میاں میر قادری لاہوری کی نسبت سے سیدنا پیران پیر دستگیر غوث الاعظم محی الدین عبدالقادر جیلانی تک سلسلہ روحانیت پہنچتا ہے۔ ’’سید بھاون شاہ مرید شاہ بلاق (اپنے والد) جن کا مزار چبارہ چھجو کے پاس ہے) کے تھے وہ شاہ عبدالرشید لاہوری، وہ شیخ محسن شاہ، وہ شیخ محمد ملا شاہ وہ میاں محمد میر بالا پیر لاہوری اور وہ حضرت خضر ستیانی اور وہ سید احمد اور وہ شیخ عابد کبیر اور وہ شاہ ابوالقاسم اور وہ حضرت موسیٰ حلبی اور وہ شاہ ابوبکر اور وہ شاہ داود اور وہ شاہ سلیمان اور وہ مرید، شیخ زید اور وہ شیخ قرشی، او۔۔۔
مزید
آپ سادات گیلانیہ میں سے تھے، مظہر خوارق و کرامات تھے، زاہد، متقی، عالم، عامل اور پیر کامل تھے، آپ دعا فرماتے تو قبولیت دوڑ کر آئی دنیا و عقبیٰ کے حاجت مند حاضر خدمت ہوتے اور مستفیض ہوتے۔ بادشاۂِ شاہ زمان کے لشکر کے حملے کے وقت حضرت نے اعلان کیا کہ ہمارا محلہ لشکر کی لوٹ مار سے محفوظ رہے گا اس لیے ہمارے محلہ کا ایک فرد بھی کسی قسم کا خوف و ہراس نہ کرے امر واقعہ یہ ہے کہ شاہ زمان کے لشکر نے سارے علاقے کو لوٹ مار کا نشانہ بنایا مگر حضرت کے محلہ کی طرف ایک سپاہی بھی نہیں آیا، اگر کوئی محلے میں داخل ہوا بھی اخلاص و عقیدت کے ساتھ حاضر ہوا اور گردن جھکاکر واپس چلا گیا۔ حضرت کا معمول تھا کہ آپ نے اپنے دروازے کے باہر لکڑی کا اک تختہ نصب کردیا تھا لوگ علی الصباح آتے اور پانی کے پیالے اس تختے پر رکھ دیتے آپ نماز سے فارغ ہو کر اپنے وظائف اور دیگر معمولات سے اٹھ کر باہر نکلتے اور پانی دم ک۔۔۔
مزید