اسم گرامی محمد بن عبدالوہاب تھا، آپ حضرت ابوالحفص حداد اور حمدوں قصار کے اصحاب میں سے تھے اپنے زمانہ کے امام تھے، ظاہر و باطن علوم میں یگانۂ روزگار تھے، تفسیر و حدیث اور فقہ میں یکتائے روزگار تھے، نیشاپور مین آپ کی شہرت کے جھنڈے بلند ہوئے۔ آپ کے ہمسایہ میں ایک ایسا شخص تھا جسے کبوتر بازی کا شوق تھا، اس نے ایک دن کبوتر اڑانے کے لیے پتھر مارا جو حضرت ابو علی قدس سرہ کی پیشانی پر آلگا خون کے فوارے چھوٹ پڑے آپ کے عقیدت مند کبوتر باز کو پکڑنے کے لیے دوڑے مگر آپ نے انہیں منع کردیا، اور کہا فلاں درخت سے ایک لمبی سی شاخ کاٹ کر اسے دے دیں اور اسے کہیں کہ اس سے کبوتروں کو اڑایا کرو اور پتھر نہ مارا کرو جب کبوتر باز نے آپ کا یہ حسن سلوک دیکھا کبوتر بازی ترک کردی۔ ایک دن آپ نے ایک جنازہ دیکھا، جسے تین مرد اور ایک عورت اٹھاکر لے جا رہی ہے، آپ نے اس عورت کو فارغ کردیا آپ نے مردے کے بارے میں۔۔۔
مزید
آپ کا نام علی تھا، بغداد کے قدیم مشائخ میں سے تھے، سید الطائفہ حضرت جنید بغدادی، حضرت سہیل بن عبداللہ تستری رحمۃ اللہ علیہما سے مجالس کرتے تھے، ایک عرصہ تک مکہ مکرمہ میں مجاور رہے یاور رہے، اولیاء کرام میں دو ایسے بزرگ ہوئے ہیں جن کا نام مزین تھا ایک مزین صغیر اور دوسرے مزین کبیر تھے دونوں بغداد سے تعلق رکھتے ہیں، مزین صغیر کا مزار مکہ مکرمہ میں ہے دونوں مزین خالہ زاد بھائی تھے۔ ایک دن حضرت شیخ مزین ایک وادی سے گزر رہے تھے ایک شیر کو دیکھا جو آپ کو غصے سے دیکھ رہا تھا آپ نے فرمایا: ثم اماتہ فاقبرہ،(پھر تمہیں مارے گا اور قبر میں ڈالے گا) اسی وقت شیر زمین پر بیٹھ گیا اور آپ نےدیکھا کہ وہ مرا پڑا تھا حضرت شیخ پہاڑی پر پہنچے تو آپ نے شیر کا حشر دیکھ کر فرمایا: ثم اذا شاء انشرہ (پھر جب چائے گا اسے اٹھائے گا ) شیر اسی وقت زندہ ہوگیا اور جنگل میں چلا گیا۔ آپ کی وفات ۳۲۸ھ میں ہوئی۔۔۔۔
مزید
کنیت ابواسحاق تھی، مشائخ شام میں سے تھے، حضرت ذوالنون مصری، حضرت جنید ابو عبداللہ جلا سے صحبت رکھتے تھے، عمر بہت لمبی پائی تھی، آپ کا ایک مرید ایک وادی سے گزر رہا تھا اس نے دیکھا کہ ایک غضب ناک شیر اس پر حملہ کرنا چاہتا ہے آپ کی گدڑی میں حضرت شیخ ابراہیم کی گدڑی کا ایک ٹکڑا چسپاں تھا شیر کی غضب ناک نگاہیں اس ٹکڑے پر پڑیں تو سر زمین پر رکھ دیا اور جنگل کی طرف بھاگ نکلا آپ کے خرقہ کی حرمت شیروں کے ہاں بھی پائی جاتی تھی۔ آپ کی وفات ۳۲۶ھ ہے۔ چو ابراہیم بن داود ورقی بگو داود ورقی سال تاریخ ۲۲ سفر و رزید در جنت ز دینا بسال رحلت آں شاہ والا (خزینۃ الاصفیاء)۔۔۔
مزید
اسم گرامی محمد بن علی جعفر تھا بغداد کے رہنے والے تھے اور حضرت جنید بغدادی کے مریدوں میں سے تھے ہمہ صفت موصوف تھے زہد و تقویٰ میں معروف یگانہ تھے، مشائخ کبار میں مانے جاتے تھے سالہا سال حرم محترم میں رہے، آپ نے چراغ حرم کا خطاب پایا، ساری رات عبادت الٰہی میں مشغول رہتے، طواف کعبہ کے دوران بارہ ہزار بار قرآن پاک ختم کیا کعبۃ اللہ کے ناؤداں کے نیچے بیٹھ کر تیس سال عبادت کی ان تیس سالوں میں ایک بار بھی زمین پر پشت لگاکر نہ سوئے۔ شیخ ابوالحسن مزین فرماے ہیں میں ایک بار سفر حجاز پر تھا زاد راہ کے بغیر ہی ایک صحرا میں فروکش ہوا میرے پاس نہ پانی تھا نہ سواری چلتے چلتے ایک چشمہ پر رکا، بیٹھے بیٹھے سوچنے لگا یہ سارا سفر بغیر زادراہ اور سواری کے گزرا ہے حوض کے کنارے سے مجھے ایک گرجدار آواز آئی ابوالحسن ان بیہودہ خیالوں سے نفس کو خوش نہ کرو، میں نے دیکھا حضرت ابوبکر کتانی تھے میں اسی وقت اللہ ۔۔۔
مزید
اسم گرامی محمد بن موسیٰ تھا، ابن فرغانی کے نام سے شہرت حاصل کی حضرت جنید بغدادی اور حضرت نوری رحمۃ اللہ علیہما کے مشہور خلفاء میں شمار ہوتے تھے علوم ظاہر و باطن اسرار و توحید میں جامع تھے علم اشارات میں آپ کی قابل قدر تصانیف یادگار زمانہ رہے حضرت شیخ عبداللہ انصاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سارے خراساں میں توحید کی تبلیغ جس قدر شیخ ابوبکر واسطی رحمۃ اللہ علیہ نے کی کسی دوسرے بزرگ نے نہیں کی۔ طبقات سلمی کے مؤلف نے آپ کا سن وفات ۳۲۱ھ لکھا ہے مگر صاحب نفحات الانس نے ۳۱۶ھ تحریر کیا ہے، دوسری طرف محاسن الاخبار کے مصنف نے ۳۰۸ھ لکھا ہے۔ ابوبکر بود صادق صدیق مقتدا گفتم بسال رحلت او قول مختلف پیر زمانہ عابدِ حق شیخ متقی بوبکر واسطی و ابی بکر واسطی ۳۱۶ھ ۳۲۱ھ عابد ابوبکر محاسن الاخبار نے تاریخ وفات لکھی ہے۔ (۳۰۸ھ) (خزینۃ الاصفیاء)۔۔۔
مزید
کنیت ابوالحسن، اسم گرامی محمد بن اسماعیل تھا، سامرہ سے تعلق رکھتے تھے بغداد میں مجالس قائم کیں، حضرت سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید تھے، حضرت جنید بغدادی کے احباب میں سے تھے، شیخ نوری اور ابن عطاء کے استاد تھے حضرت ابراہیم خواص اور شبلی رحمۃ اللہ علیہما نے آپ ہی کے ہاتھ پر توبہ کی، آپ نے ہی حضرت شبلی کو حضرت جنید بغدادی کی مجالس میں جانے کا حکم دیا تھا۔ حضرت جامی رحمۃ اللہ علیہ نفحات الانس میں لکھتے ہیں کہ اگرچہ آپ نساج کے نام سے مشہور لیکن حقیقت میں آپ نساج (جولائے) نہیں تھے، نساج نام رکھنے کی وجہ یہ تھی کہ ابتدائی زمانہ زندگی میں آپ نے اللہ سے یہ وعدہ کیا کہ میں کھجوریں ہرگز نہیں کھاؤں گا حالانکہ یہ میوہ مجھے بڑا دل پسند ہے، ایک دفعہ سفر میں تھے کہ نفس کی خواہش نے آپ کو مغلوب کرلیا کہ وہ کھجور کھائیں کچھ کھجوریں اٹھائیں اور ان میں سے ایک دانہ کھالیا، ایک ش۔۔۔
مزید
بغداد کے رہنے والے تھے، حضرت ابراہیم خواص رحمۃ اللہ علیہ سے فرقہ خلافت پایا تھا سماع اور وجد کے دلدادہ تھے۔ مجلس سماع میں بیٹھتے تو بے خود ہوجاتے ایک دن سماع کے دوران آہ کھینچی اور واصل بحق ہوگئے، آپ کا وصال ۳۲۰ھ میں ہوا۔ احسن الخلق بو الحسین ولی رحلتش ہادی مکرم واں رفت چوں زین جہاں بخلد بریں ہم بخواں بوالحسین محی الدین ۳۲۰ھ (خزینۃ الاصفیاء)۔۔۔
مزید
آپ کا اسم گرامی محمد عبداللہ بن سعد ہے، آپ قدما اور کبار مشائخ میں سے تھے حضرت عثمان حدی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید تھے آپ کی وفات ۳۱۹ھ میں ہوئی۔ بوالحسن آں رہبر دنیا و دین حق نما دین ولی سالش بگو ۳۱۹ ور مشائخ بود شمع انجمن نیر عبداللہ ہادی بو الحسن ۳۱۹ (خزینۃ الاصفیاء)۔۔۔
مزید
آپ کی کنیت ابوعبیدہ تھی، بلخ کے رہنے والے تھے، شیخ احمد خضرویہ کے مرید تھے، آپ نے بلخ میں ایسی باتیں کیں کہ لوگ آپ کے گرویدہ ہوگئے مگر بعض متعصب حاسدوں نے آپ کو شہر سے نکال دیا، شہر سے باہر جاکر آپ نے مڑ کر شہر کو دیکھا اور اہل شہر پر لعنت کہی کچھ عرصہ کے بعد بہت سے شہری وباء کا شکار ہوگئے وہاں سے سمر قند پہنچے اور اپنی لیاقت اور قابلیت سے قاضی شہر مقرر ہوئے اس کے بعد حج کرلیا اور واپسی پر نیشا پور قیام پذیر ہوئے وہاں وعظ و نصیحت کی مسند بچھائی، اور ۳۱۹ھ میں فوت ہوئے، آپ کا مزار سمرقند میں بنایا گیا۔ چوں محمد جناب ابن فضل یار حق گفت دل بر حلت او یافت با قرب حق کمال وصال پیشوا نیز گفت مہر جمال ۳۱۹ھ (خزینۃ الاصفیاء)۔۔۔
مزید