بدھ , 26 جمادى الآخر 1447 ہجری (مدینہ منورہ)
/ Wednesday, 17 December,2025

پسنديدہ شخصيات

حضرت یوسف اسباط﷫

  صاحب مقامات بلند، مالکِ کرامات ارجمند۔ ماہر علوم ظاہر و باطن واقف رموزِ تجرید و توکل۔ یگانہ آفاق حضرت یوسف اسباط﷫ اولیاء اللہ میں ممتاز مقام رکھتے تھے آپ کو ایک ہزار درہم ملا۔ تمام کے تمام اللہ کی راہ میں تقسیم کردیے خود کھجور کے پتے جمع کرتے اس کی مزدوری سے روزی کماتے۔ چالیس سال عریاں رہے۔ اور بجز ضرورت ستر کپڑا انہیں خریدا۔ سردیوں میں ایک پرانا بوریا اوڑھ لیتے اور اللہ کی عبادت میں مشغول رہتے۔ آپ کی وفات ۱۹۶ھ میں ہوئی۔ چو یوسف بر رخ خود پَردہ بربست بگو سلطان ولی تاریخ وصلش ۱۹۶ھ   رواں شد روح پاک اوبا فلاک ذکر فرما کہ یوسف زاہد پاک ۱۹۶ھ (خزینۃ الاصفیاء)۔۔۔

مزید

حضرت شفیق بلخی﷫

  حضرت ابو علی شفیق بلخی﷫ قدیم مشائخ میں سے تھے۔ صاحب کرامات اور خوارق تھے روحانیت کے بلند مقامات پر فائز تھے۔ حضرت امام موسیٰ رضا اور سلطان ابراہیم ادھم رحمۃ اللہ علیہما کی مجالس میں شریک ہوئے، حضرت امام ابوحنیفہ کے مذہب پر زندگی بسر کی، توکل و قناعت پر کار بند رہے، مختلف علوم و فنون میں تصانیف بطور یاد گار چھوڑیں۔ ایک بار مالِ تجارت لاد کر ترکستان کو روانہ ہوئے ایک بت خانہ سے گزر ہوا۔ وہاں ایک بت پرست بت کے سامنے رو رہا تھا۔ اور کہہ رہا تھا کہ اے بت میری حاجت پوری کر، آپ نے فرمایا: ارے بیوقوف تمہارا خالق موجود ہے جو حی و قیوم ہے۔ قاضی الحاجات ہے اس بے جان کے سامنے کیوں سجدہ کرتا ہے اور روتا رہتا ہے اس بت پرست نے کہا کہ اگر وہ قادر مطلق ہے رازق و خالق ہے تو پھر تو تلاش رزق میں کیوں مارا مارا پھرتا ہے۔ حضرت  شفیق یہ بات سنتے ہی غفلت سے بیدار ہوگئے اور دنیا و ما فیہا کو ترک کردیا۔۔۔۔

مزید

حضرت محمد سماک﷫

  ابوالعباس حضرت محمد سماک قدیم علماء دین اور مشائخ اہل یقین میں سے تھے۔ حافظ قرآن تھے، زاہد تھے، عابد تھے متقی تھے اور واعظ تھے کلام کرتے تو عقل و حکمت کے پھول گرتے، بیان کرتے تو شافی اور وافی ہوتا، وعظ و نصیحت میں اپنی مثال آپ تھے، حضرت سفیان ثوری﷫ سے صحبت رکھتے تھے۔ حضرت معروف کرخی﷫ آپ کی باتوں کو پسند فرماتے تھے۔ ساری عمر تنہا گزاری لوگوں نے کہا: شادی کیوں نہیں کرلیتے، فرمایا کرتے ہیں دو شیطانوں سے مقابلہ نہیں کرسکتا، ایک شیطان ابلیس اور دوسرے بیوی جس کے قبضہ میں شیطان ہوتا ہے۔ حضرت شیخ احمد حواری﷫ بیان فرماتے ہیں کہ ایک بار حضرت سماک بیمار ہوگئے میں قارورۂ طبیب کے پاس لیے جا رہا تھا کہ راہ میں ایک پیر روشن ضمیر سے ملاقات ہوئی، انہوں نے پوچھا، کہاں جا رہے ہو، میں نے بتایا کہ سماک بیمار ہیں، اُن کے لیے طبیب سے دوائی لینے جا رہا ہوں، آپ نے فرمایا: سبحان اللہ، اللہ کا دوست غیراللہ سے۔۔۔

مزید

حضرت عقبہ بن انعلام﷜

  آپ خواجہ حسن بصری﷫ کے شاگرد اور مرید تھے۔ زہد و تقویٰ میں کمال رکھتے تھے۔ ایک دن آپ خواجہ حسن بصری کے ساتھ دریا کے کنارے بیٹھے تھے۔ عقبہ دریا پر چلنے لگے۔ حضرت حسن نے پوچھا کہ آپ کو یہ مقام کیسے حاصل ہوا۔ آپ نے فرمایا: تیس سال ہوچکے ہیں۔ میں وہ کرتا ہوں جو وہ چاہتا ہے۔ مگر تم وہ کام کرتے ہو۔ جو وہ فرماتا ہے۔ یہ مقام اس کی تسلیم و رضا سے حاصل ہوا ہے۔ آپ کے توبہ کرنے کا واقعہ بھی تذکرہ نگاروں نے یوں بیان کیا ہے کہ ایک دن ایک عورت سر پر چادر لپیٹے جا رہی تھی۔ اس نے مڑ کر دیکھا تو پیچھے عقبہ جا رہے تھے جونہی اس کی خوبصورت آنکھیں عقبہ کی نگاہوں میں آئیں وہ بدل و جان عاشق ہوگئے۔ اس کی خوب صورت آنکھوں کی کشش نے انہیں جذب کرلیا۔ عورت نے پوچھا تو نے میرے اندر کیا دیکھا کہ عاشق ہوگئے ہو، کہنے  لگے کہ تمہاری آنکھوں نے مجھے مسحور کر ڈالا ہے۔ اس پاک دامن عورت نے اپنی دونوں آنکھوں کو نکال ڈا۔۔۔

مزید

حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری

حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ عنہ حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ معروف صحابی حضرت سیدناعبداللہ بن عمرو بن حرام الانصاری کے صاحب زادے ہیں۔ آپ کے والد حضرت عبداللہ انصاری غزوۂ احد میں شہید ہوئے۔حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ ہجرت مدینہ سے تقریباًپندرہ سال پہلے مدینہ منورہ  میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق قبیلہ خزرج سے تھا۔ آپ کم عمری میں اسلام لائے اور بے شمار غزوات میں حضرت محمد ﷺ کا ساتھ دیا۔چناں چہ غزوہ خندق  کاواقعہ خودحضرت جابر رضی اللہ عنہ  بیان فرماتے ہیں:آپ ﷺکے شکمِ مبارک پر(بھوک کی شدت کی وجہ سے)پتھر بندھا ہوا تھا۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :کہ خودہماری یہ کیفیت تھی کہ ہم نے بھی تین دن سے کوئی چیزنہیں چکھی تھی۔میں گھر آیا تو ایک بکری کا بچہ اور تھوڑے سے جو کے علاوہ کچھ بھی موجود نہیں تھا۔میں نے حاضر ہوکر عرض کی یارسول اللہ ﷺدو تین افراد ۔۔۔

مزید

حضرت عبداللہ ابن عمر الخطاب رضی اللہ عنہ

  آپ کی کنیت عبدالرحمان تھی۔ اسلام کے اعاظم محدثین میں تھے۔ کثرتِ صدقات میں معروف تھے وفات ۷۳ھ میں ہوئی۔ جناب شاہ عبداللہ عالی بسالِ رحلتش شد سوز تاریخ   کہ ذاتِ او براہِ حق دلیل ست  محب پاک گنج ست و جلیل است (خزینۃ الاصفیاء)۔۔۔

مزید

حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

  آپ سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق جانباز اور رفیق و ساز تھے جلیل القدر صحابہ رسول میں شمار ہوتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے حضور کی دعا سے آپ کو بے پناہ قوت حافظہ عطا فرمائی۔ جو بات سن لیتے دماغ میں نقش ہوجاتی۔ آپ کو حفظ صحابہ کا خطاب ملا تھا۔ آپ اصحاب صفّہ میں سے تھے ایک دن آپ بلی کا بچہ لیے حضور کی بارگاہ میں حاضر ہوئے۔ حضور نے محبت سے ابوہریرہ (بلی کا باپ) کا خطاب دیا۔ حضور کے وصال کے بعد آپ کی زبان سے ہزاروں احادیث نبویہ روایت کی گئیں۔ رضی اللہ عنہ۔ آپ کا وصال ۵۷ھ یا ۵۹ھ میں ہوا۔ سالِ ترحیل اُو ز مہدی جو گر تو خواہی دوبار حامی گو جلوہ اُحد زیب ابدال پاک دل مجید محب ۵۷ ۵۷ ۵۷ ۵۷ ۵۷ سے سن تاریخ برآمد ہوتا ہے۔ (خزینۃ الاصفیاء)۔۔۔

مزید

احمد بن عبیداللہ محبوبی

احمد بن عبید اللہ بن ابراہیم احمد محبوبی: صدر الشریعہ اکبر اور شمس الدین کے لقب سےمشہور تھے،علماء کبار میں سے عالم فاضل،اصول و فروع میں دستگاہ کامل رکھتے تھے۔علم اپنے باپ جمال الدین عبید اللہ بن ابراہیم تلمیذ محمد بن ابی بکر صاحب شرعۃ الاسلام شاگرد عماد الدین عمر بن بکر بن محمد زرنجری سے حاصل کیا اور آپ سے آپ کے بیٹے محمود بن احمد محبوبی نے اخذ کیا۔کتاب تلقیح العقول نے الفروق تصنیف فرمائی۔[1]   1۔ وفات ۲۳۰؁ھ (معجم المؤلفین)  حدائق الحنفیہ۔۔۔

مزید

بابا داؤد مشکوٰتی

          بابا داؤد مشکوٰتی کشمیری: فقہ،حدیث،تفسیر،حکمت،معانی میں ید طولیٰ رکھتے تھے چونکہ مشکوٰۃ المصابیح آپ کو متنا واسناد احفظ تھی اس لیے آپ داؤد مشکوٰتی خطاب سے مخاطب ہوئے،تمام علوم عقلی و نقلی و فنون ظاہری ورسمی خواجہ حیدر چرغی سے حاصل کر کے واسطے کسب رموز باطن کے بابا نصیب لدین کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مدت تک ان کی صحبت سے فیض حاصل کیا اور سلوک و مقامات میں عربی و فارسی تصنیفات کی اور کتاب اسرار الابراسادات عالیشان اور ذیشان کاشمیر کے حالات میں لکھی او اسرار الاشجار اور کتاب منطقل الطیر شیخ عطار کو منظوم کیا نیز خواجہ خاوند محمود نقشبندی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے علوم باطن کا کمال حاصل کر کے ۱۰۹۷؁ھ میں وفات پائی اور کاشمیر کے محلہ کند پورہ میں متصل عید گاہ کے مدفون ہوئے۔’’محدث زیب کشور‘‘ تاریخ وفات ہے۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔

مزید

محمد بن حسن کواکبی حلبی  

            محمد بن حسن بن احمد بن ابی یحییٰ کواکبی حلبی: مختلف علوم و فنون کے بحر ذخار تھے جن کو اپنے ملک کے علماء و فضلاء سے حاصل کر کے تدریس اور نشر علوم میں مصروف ہوئے۔تصنیفات  بھی عمدہ اور مفید کی چنانچہ وقایہ کومنظوم کیا پھر اس کی منظوم شرح تصنیف کی اسی طرح منار کو منظوم کیاپھر اس کی شرح لکھی،تفسیر بیضاوی پر تعلیقات لکھے اور شرح مواقف پر بھی حواشی تحریر کیے۔ماہِ ذی قعدہ ۱۰۹۶؁ھ میں وفات پائی۔’’‘اربابِ فیض‘‘ تاریخ وفات ہے۔ (حدائق الحنفیہ)۔۔۔

مزید