غزل قیس و فرہاد نے کھول کر رکھ دیا عشق آساں نہیں ہر کسی کیلئے دل لگی کو نہ سمجھے کوئی دل لگی دل بڑا چاہئے دل لگی کیلئے کوئی ہے عقل والا جو سمجھا سکے اس میں کیا درس ہے آدمی کیلئے شمع اپنا کلیجہ جلاتی رہی کیوں کسی اور کی روشنی کیلئے اللہ اللہ رے ابرغم کی گھٹا اللہ اللہ رے فکر کی تیرگی دوپہر کی گھڑی وھوپ پھیلی رہی ہم ترستے رہے روشنی کیلئے مضطرب ہے وفا مضمل ہے صفا اور شرم و حیا ہوگئی لاپتہ آدمی بن کے رہنا بھی اس دور میں کس قدر سخت ہے آدمی کیلئے کون کہتا ہے ناداں ہیں اہل وفا سیکھ لو ان سے راز فنا و بقا ہوگئے با خوشی نذرِ تیغ جفا کس لئے دائمی زندگی کے لئے جو ہو آفاق میں وجہ نور سحر اسکی آمد کو سمجھو نہ آسان تر سارے تاروں نے خود کو فنا کر دیا ایک خورشید کی زندگی کیلئے اے مری جان کہتے ہیں اہل کرم دل کا رکھ لینا ہے گویا حجّٔ حرم خواب ہی میں بس اک بار آجائیے اپنے اخؔتر کی خوش اختری کیلئے ۔۔۔
مزید
غزل شعلے بھڑک رہے ہیں دل بیقرار میں بیٹھا ہوں رہگذر پہ ترے انتظار میں رشک گلاب نازش بوئے گل چمن ایسی بسی ہوئی ہے مہک زلف یار میں رضواں تمہیں قسم ہے تمہاری بہشت کی ہرگز قدم نہ رکھنا کبھی کوئے یار میں حاصل کہاں ہے دائرہ آفتاب کو جو روشنی ہے ان کے سراب دیار میں اخؔتر نہیں مجالِ جنوں ہوش کو سنبھال سوء ادب ہے بولنا بزم خیار میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مزید
صرصرِغم ساتھ ہو یا شادمانی ہو رفیق خاطرِ زندہ کبھی غمناک ہوسکتا نہیں ۔۔۔
مزید
سِہرا بانداز غزل میرے نوشاہ کی دل ربائی چاندنی دیکھ کر مسکرائی بزم کی بزم ہے عطر آگیں ایسی سہرے میں خوشبو سمائی بس لچکنا تھا سہرے کا رخ پر دو دلوں کی کلی مسکرائی آج خوش خوش نسیمِ سحر بھی مژدۂ جانفزا لے کے آئی وجد میں سن کے ہر اک کلی ہے اہل محفل کی نغمہ سرائی میرے نوشہ کی دلکش ادائیں جس کو دیکھو وہی ہے فدائی دولہا دولہن کو ہوئے مبارک ان کی ساکت تمنا برآئی اس طرف تاب دست محبت اور اس سمت دست حنائی کہہ اٹھے اہل محفل بھی اخؔتر خوب تو نے غزل گنگنائی ۔۔۔
مزید
غزلیات نگاہ ستمگراں پیامِ مرگ ہوا ناز دوستاں نہ ہوا کسی کی موت ہوئی غمزۂ بتاں نہ ہوا ضرور بزم تصور میں کوئی آتا ہے مگر مجھے تو تمہارا کبھی گمان نہ ہوا ہجومِ یاس نے رسوا کہاں کہاں نہ کیا مری امیدوں کا ماتم کہاں کہاں نہ ہوا تھا بادباں تو رہا ناخُدا مرا دشمن جو ناخدا کو ترس آیا بادباں نہ ہوا نہیں عجب کہ دمِ واپسیں وہ آپہنچے عجب تو یہ ہے کوئی امر ناگہاں نہ ہوا ہمارے اشک کی یہ مختصر کہانی ہے کہ دل سے آنکھ میں آیا مگر رواں نہ ہوا وہ میرے دستِ جنوں کی نقاہتیں توبہ کہ چاک تھا جو گریباں وہ دھجیاں نہ ہوا خلیؔل کہنے کو کیا کیا نہ تو ہوا لیکن ادا شناسِ نگاہِ ستمگراں نہ ہوا ۔۔۔
مزید
جامِ محبت آتے ہیں مجھے یاد پھر ایامِ محبت وہ صبح محبت وہ مری شامِ محبت دینا ہے تو دید و کوئی دشنامِ محبت دل ہو بھی چکا خوگرِ آلامِ محبت اے دل یہ تری جرأت اقدام محبت تو اور ہوسِ لذّت دشنامِ محبت اٹھی ہیں کسی شاہد رعنا کی نگاہیں روشن ہیں جو دیوار و در و بامِ محبت خود کعبۂ عشاق بڑھے بہرِ زیارت باندھے ہوئے نکلا ہوں میں احرامِ محبت آسودۂ محفل ہیں وہ سمجھیں گے بھلا کیا کس طرح گزرتی ہے مری شامِ محبت اے دوست محبت کی حقیقت بھی ہے کوئی دیتے ہیں مجھے لوگ جو الزامِ محبت اب پوچھ رہے ہو کہ یہ تھا کشتۂ غم کون باقی ہے کوئی اور بھی دشنامِ محبت آنکھوں میں نمی ہے تو یہ دل بہہ کے رہے گا آغاز سے کھل جاتا ہے انجامِ محبت اللہ مُہَوّس کی نگاہوں سے بچائے بغداد سے ملتا ہے مجھے جامِ محبت تو کیا ہے خلیؔل، ان کا مگر یہ بھی کرم ہے کہتے ہیں تجھے بندۂ بے دامِ محبت ۔۔۔
مزید
ترے بغیر دل کا کنول بہار نہ لایا ترے بغیر آیا جو تیری یاد کا جھونکا ترے بغیر تاروں کی چھاؤں میں بھی نہیں ہے سکوں نصیب کتنی اداس ہے مری دنیا ترے بغیر وارفتگی نے بڑھ کے مجھے اور کھودیا آئی نہ راس کوئی تمنا ترے بغیر عہد شباب، بزمِ طرب، محفل نشاط بے کیف ہے یہ سارا تماشا ترے بغیر آہ و بکا کے ساتھ تبسم نہیں کوئی مہنگا پڑا نہ نزع کا سودا ترے بغیر دیوانگی خرد کے مقابل نہ آسکی یعنی جنوں کو ہوش نہ آیا ترے بغیر رہ جاتا ہے خلیؔل کلیجہ مسوس کر چلتا ہے میکدہ میں جو مینا ترے بغیر ۔۔۔
مزید
زاہدانہ ادائیں بھلادیں اگر تم نے میری وفائیں تو پھر کون لے گا جفا کی بلائیں سر عرش پہنچیں جو میری دعائیں کہاں جائیں گی پھر تمھاری جفائیں ادائیں پھر ان مہ وشوں کی ادائیں کہ دل میں رہیں اور آنکھیں چرائیں نہ ہوجائیں زیر و زبر یہ فضائیں غضب ہے کہ آپ اور آنسو بہائیں تصور میں بھی ہم سے دامن بچانا یہاں بھی وہی زاہدانہ ادائیں میں روؤں تو لڑیاں جھریں موتیونکی چمن ہنس پڑیں وہ اگر مسکرائیں دوبالا ہوا حسن غصّہ سے ان کا اگر میں نے بھولے سے لے لیں بلائیں یہ توبہ کی نیر نگیاں اللہ اللہ مگر توبہ توبہ وہ رنگیں خطائیں عجب کیا کوئی ان کا پیغام لائے بڑی خوشگوار آرہی ہیں ہوائیں بڑھ اے جذبۂ دل منا لائیں ان کو چل اے شوقِ پیہم انہیں گد گدائیں شب غم کے ہیں سب یہ آثار یعنی اتر نے لگیں آسماں سے بلائیں خلیؔل آدمی کا گزر ہے وہاں بھی جہاں عقل و وہم و گماں تھر تھرائیں ۔۔۔
مزید
ہم ہی چلے جاتے ہیں جو ہم غریبوں کو ناحق ستائے جاتے ہیں خود اپنی راہ میں کانٹے بچھائے جاتے ہیں کچھ اس طرح سے خیالوں پہ چھائے جاتے ہیں نظر سے دور ہیں دل میں سمائے جاتے ہیں خدا کے واسطے کوئی انہیں بھی سمجھاتا یہ چارہ ساز مری جان کھائے جاتے ہیں خزاں بہار کے پردے میں آگئی سر پر چمن میں غنچے مگر مسکرائے جاتے ہیں یہ کس کے دل کو نشانہ بنایا جاتا ہے یہ کس کے خون میں پیکاں بجھائے جاتے ہیں یونہی بھڑکتا رہے گا جو شوقِ نظارہ تو دل کے زخم ان آنکھو نمیں آئے جاتے ہیں کبھی نہ ساتھ دیا دلفریب دنیا نے ہوس شعار مگر تلملائے جاتے ہیں یہ چارہ سازوں میں سرگوشیاں ہوئیں کیسی یہ کیوں ملول سب اپنے پرائے جاتے ہیں جو ہم نہ ہوں گے تو ہوگی نہ ہاؤ ہو یہ خلیؔل ہمارے دم کی سب ہائے ہائے جاتے ہیں ۔۔۔
مزید
دل کی لگی اپنی بگڑی بنا کے پیتا ہوں ان سے نظریں ملا کے پیتا ہوں یار سے لو لگا کے پیتا ہوں آگ دل کی بجھا کے پیتا ہوں رحمتِ عام مژدہ دیتی ہے محتسب کو جتا کے پیتا ہوں بے خودی پردہ دار ہوتی ہے ماسوا کو بھلا کے پیتا ہوں وہ جو ایسے میں یاد آتے ہیں چار آنسو بہا کے پیتا ہوں کوثر و سلسبیل کے غم میں صحنِ مسجد میں جا کے پیتا ہوں زندگی کو سنوار نے کیلئے اپنی ہستی مٹا کے پیتا ہوں اللہ اللہ کمالِ مے نوشی آنکھوں آنکھوں میں لاکے پیتا ہوں صدقہ دیتا ہوں پار سائی کا تھوڑی سی مے گرا کے پیتا ہوں مجہکو احباب دیں نہ کچھ الزام ’’شیخ جی‘‘ کو دکھا کے پیتا ہوں ان کی آنکھوں کو دیکھتا ہوں خلیؔل گویا ساغر اٹھا کے پیتا ہوں ۔۔۔
مزید
غم بے بدل عرس نوری ۱۳۷۴ ھ مارھرہ شریف کبھی سر کو دھن رہا ہوں کبھی ہاتھ مل رہا ہوں دل مضطرب بتا دے کہ میں کیوں مچل رہا ہوں میں تمہیں پتا بتادوں جو تمہیں بھی یاد آئے میں تمہیں زندگی کا کبھی ماحصل رہا ہوں کبھی پھول بھی چنے تھے اسی زندگی کی خاطر اسی زندگی کی خاطر میں انہیں مسل رہا ہوں میں جو غم میں جل رہا تھا تو سکوں کی جستجو تھی جو سکوں ذرا ملا ہے تو سکوں میں جل رہا ہوں مجھے ان کے وار سہنے انہیں مجھ پہ وار کرنے وہ اُدھر سنبھل رہے ہیں میں اِدھر سنبھل رہا ہوں مری بے خودی نے بخشا وہ سرور زندگی کا کہ میں موت کا سہارے تری راہ چل رہا ہوں نہ مجھے خلیؔل شکوہ نہ کوئی گلہ کسی کا کہ میں اپنی زندگی کا غم بے بدل رہا ہوں ۔۔۔
مزید
شمعِ اُمّید آنکھ میری جو ڈبڈباتی ہے آبرو ضبطِ غم کی جاتی ہے اک مسیحا کی بات جاتی ہے یعنی پھر موت مسکراتی ہے یوں نہ آؤ نقاب ڈالے ہوئے آرزو اور تلملاتی ہے زندگی بھی حباب آسا سہی فکر فردا بھی کھائے جاتی ہے غنچہ و گل کی تاک میں ہے خزاں شور بلبل عبث مچاتی ہے ہے عدم بھی وجود کی تمہید جان جاتی ہے موت آتی ہے بوالہوس دشت سے نکل جائیں میری وحشت قدم بڑھاتی ہے میرے مالک لگا دے ساحل سے کشتئ عمر ڈگمگاتی ہے کوئی ہمدم نہیں شبِ غم کا شمعِ امید ٹمٹماتی ہے ہے سراپا فریب گو دنیا دل مگر کس قدر لبھاتی ہے پھول برسا نہ یوں سخن کے خلیؔل غنچۂ و گل کو شرم آتی ہے ۔۔۔
مزید