غم بے بدل عرس نوری ۱۳۷۴ ھ مارھرہ شریف کبھی سر کو دھن رہا ہوں کبھی ہاتھ مل رہا ہوں دل مضطرب بتا دے کہ میں کیوں مچل رہا ہوں میں تمہیں پتا بتادوں جو تمہیں بھی یاد آئے میں تمہیں زندگی کا کبھی ماحصل رہا ہوں کبھی پھول بھی چنے تھے اسی زندگی کی خاطر اسی زندگی کی خاطر میں انہیں مسل رہا ہوں میں جو غم میں جل رہا تھا تو سکوں کی جستجو تھی جو سکوں ذرا ملا ہے تو سکوں میں جل رہا ہوں مجھے ان کے وار سہنے انہیں مجھ پہ وار کرنے وہ اُدھر سنبھل رہے ہیں میں اِدھر سنبھل رہا ہوں مری بے خودی نے بخشا وہ سرور زندگی کا کہ میں موت کا سہارے تری راہ چل رہا ہوں نہ مجھے خلیؔل شکوہ نہ کوئی گلہ کسی کا کہ میں اپنی زندگی کا غم بے بدل رہا ہوں ۔۔۔
مزیدشمعِ اُمّید آنکھ میری جو ڈبڈباتی ہے آبرو ضبطِ غم کی جاتی ہے اک مسیحا کی بات جاتی ہے یعنی پھر موت مسکراتی ہے یوں نہ آؤ نقاب ڈالے ہوئے آرزو اور تلملاتی ہے زندگی بھی حباب آسا سہی فکر فردا بھی کھائے جاتی ہے غنچہ و گل کی تاک میں ہے خزاں شور بلبل عبث مچاتی ہے ہے عدم بھی وجود کی تمہید جان جاتی ہے موت آتی ہے بوالہوس دشت سے نکل جائیں میری وحشت قدم بڑھاتی ہے میرے مالک لگا دے ساحل سے کشتئ عمر ڈگمگاتی ہے کوئی ہمدم نہیں شبِ غم کا شمعِ امید ٹمٹماتی ہے ہے سراپا فریب گو دنیا دل مگر کس قدر لبھاتی ہے پھول برسا نہ یوں سخن کے خلیؔل غنچۂ و گل کو شرم آتی ہے ۔۔۔
مزیدآتش شوق آج جو ناز سے اٹھلاتی ہوئی آتی ہے ہو نہ ہو یار کا پیغام صبا لاتی ہے ماند پڑجاتی ہے تنویر مہ و انجم کی ان کی تصویر جب آنکھوں میں سما جاتی ہے آپ آتے ہیں جو بالیں پہ نقاب افگندہ اس کے معنی ہیں کہ در پردہ قضا آتی ہے چھین تو لیتی ہے دل ابر بہاری کی ادا آپ کی یاد مگر اور بھی تڑپاتی ہے مختصر داستاں مجھ تلخ نوا کی یہ ہے میری ہستی بھی مرے حال پہ جھنجلاتی ہے دل کی تسکین تو ہو جاتی ہے روتے روتے آتش شوق مگر اور بھڑک جاتی ہے کتنا تاریک ہے پہلو شب تنہائی کا ان کے ہوتے بھی طبیعت مری گھبراتی ہے یہ تو سمجھاؤ کہ کیا دیکھنے والے سمجھیں ذکر ہوتا ہے مرا تم کو حیا آتی ہے آگ لگ جاتی ہے دامانِ تحمّل میں خلیؔل عشق کے نام سے دنیا مری تھراتی ہے ۔۔۔
مزیدجستجو نگہت نہ تیری زلف کی گر چار سوگئی کس دھن میں پھر نسیم سحر کو بہ کو گئی پوچھا نہ تم نے حال دل بے قرار کا حسرت بھی اٹھ کے بزم سے شرمندہ روگئی وابستہ میرے دم سے یہ سب ہائے وائے ہے اٹھا جو میں تو دیکھنا سب ہاؤ ہُوگئی اے اشک تجھ سے بھی نہ ہوا دل کا کچھ علاج آنکھوں سے گر کے اور تری آبروگئی اللہ رے بے خودئ محبت کہ بارہا خود میری جستجو میں مِری جستجو گئی نظّاروں میں وہ لطف میسر نہیں رہا شاید کہ دلفریبئ ہر رنگ و بو گئی ساقی نے میرے نام پہ تشکیل بزم کی میخانے میری روح جو بہر وضو گئی آنا تھے اور نہ آیا ہمیں چین عمر بھر جانی تھی اور نہ ہم سے محبت کی خُوگئی سنتے ہیں مے سے توبہ کئے بیٹھے ہیں خلیؔل اب میکدہ سے لذتِ جام و سبو گئی ۔۔۔
مزیدرازِ زندگی ہر نفس کو ہم پیغامِ آخری سمجھا کئے زندگی کو مایۂ بے مائگی سمجھا کئے آسرا جینے کا تم کو جیتے جی سمجھا کئے جان دینے کو ہمیشہ زندگی سمجھا کئے دل کی بربادی کو ہم دل کی خوشی سمجھا کئے عمر بھر بس موت ہی کو زندگی سمجھا کئے الوداع اے عشرتِ فانی کہ آنکھیں کھل گئیں ہم فریب ِ زندگی کو زندگی سمجھا کئے آج عرضِ حال پر میرے توجہ خاص تھی گفتنی سنتے رہے ناگفتنی سمجھا کئے بےخودی کہتے ہیں جس کو موت ہے احساس کی موت کے احساس کو ہم بے خودی سمجھا کئے عشق میں کھوئے تو پہچانی حقیقت حسن کی اور دیوانے اسے دیوانگی سمجھا کئے کیا بتاؤں کیسی گزری بزم حسنِ یار میں میری سب سنتے رہے اور یار کی سمجھا کئے نفس کی ناکامیوں میں کامرانی ہے خلیؔل زندگی کا راز اہل دل یہی سمجھا کئے ۔۔۔
مزیدآرزوئے دید یا تو یہ ہو کہ تاب رہے دید کی مجھے یا یہ کہ چشمِ لطف سے دیکھے کوئی مجھے یارب عطا ہو ایسا سکون دلی مجھے غم کا ہو کوئی غم نہ خوشی کی خوشی مجھے شاید کہ راس آگئی کوئی خوشی مجھے میں زندگی کو روتا ہوں اور زندگی مجھے طے ہورہا ہے قصۂ طو لانئی حیات اب تو نہ دے فریب، غمِ زندگی مجھے مِل مِل کے رو رہے ہیں جو تاب و توانِ دل اے آرزوئے دید کہاں لے چلی مجھے غربت کی راہ میں جو بڑھایا کبھی قدم کچھ دور روتی آئی مری بیکسی مجھے کیا کیا نہ گل کھلائے غم روزگار نے تم ہی بتاؤ تم نے بھی پوچھا کبھی مجھے سب کچھ بھلا دیا ستم روزگار نے بھر بھی تمھاری یاد ستاتی رہی مجھے رکھتا جو جسم زار پہ دو چار دھجیاں دستِ جنوں نے اتنی بھی مہلت نہ دی مجھے غربت میں اب تو عیش بھی بھاتا نہیں خلیؔل ہائے وطن کی یاد کہاں آگئی مجھے ۔۔۔
مزیدشعلۂ عشق میرے جذبۂ عشق کی ادنیٰ سی یہ تاثیر ہے یاس ہے پہلو میں لیکن شوق دامنگیر ہے تجھ کو کس سے شکوۂ ناکامئ تدبیر ہے خود ترے ہاتھوں میں غافل خامۂ تقدیر ہے مایۂ جمیعت دل ہے پریشاں خاطری میں اسیرِ زلف ہوں وحشت میری جاگیر ہے زیست کیا ہے؟ اک طلسم کائناتِ رنگ و بو موت کیا ہے؟ اس طلسم خواب کی تعبیر ہے ہر مصیبت میں ہے مضمر راحت و آرام بھی ہاتھ میں دامانِ شب کی صبح کی تنویر ہے ہوش میں ہوتا تو کچھ راز حقیقت کھولتا اے سرورِ بے خودی یہ سب تری تقصیر ہے میں اِدھر مشاطۂ تدبیر سے مصروف ہوں اُس طرف حیرت زدہ آئینہ تقدیر ہے ہو نہ ہو بھڑکا ہے دل میں آج شعلہ عشق کا ورنہ کیوں ان آنسوؤں میں آگ کی تاثیر ہے کاٹئے اس دور کو گوشہ نشیں بن کر خلیؔل شورشیں برپا ہیں ہو سو، شورِ دار و گیر ہے ۔۔۔
مزیدعشق بے اختیار ہچکیوں کا شمار ہے یعنی آپ کا انتظار ہے یعنی فتنہ برپا ہے آج عالم میں دل بہت بے قرار ہے یعنی آنکھ اٹھتی نہیں ہے محشر میں فتنہ گر شرمسار ہے یعنی کس قدر سوگوار ہے دنیا زیست بھی ایک بار ہے یعنی مستئ چشم یار ارے توبہ شام ہی سے خمار ہے یعنی وہ بلانے سے بھی نہیں آتے حسن بااختیار ہے یعنی دہ پَہرَ ڈھل گئے مسرت کے ختم صبحِ بہار ہے یعنی دل دھڑکتا ہے بَلّیوں میرا ان کے دل کی پکار ہے یعنی سارے جلوے ہیں حسن کامل کے عشق بے اختیار ہے یعنی کس نے دل کا قرار لوٹ لیا کیوں سکوں ناگوار ہے یعنی پوچھنا کیا خلیؔل مضطر کا ایک تازہ شکار ہے یعنی ۔۔۔
مزیددلِ خلیل جب عشق کا سودا مول لیا احباب سے رشتہ ٹوٹ گیا وہ دل کی تمنا خاک ہوئی، وہ دامن عشرت ٹوٹ گیا دل بھی تو خلیؔل خستہ کا شیشے سے زیادہ نازک تھا صدمے جو پڑے تو مَول گیا، نظروں سے گرا تو پھوٹ گیا شورداریگر انقلاب دہر کی تصویر کیا؟ خواب کیا ہے؟ خواب کی تعبیر کیا؟ زندگی شوریدگی کا نام ہے پھر مالِ شورِ دار و گیر کیا؟ وفا و خطا دو چار خطاؤں کو خاطر میں نہ لانا تھا اور میری وفاؤں کو دل سے نہ بھلانا تھا تم اپنی نگاہوں سے بجلی ہی گرادیتے مجھکو تو نہ نظروں سے اس طرح گرانا تھا عشق بیتاب ہے دل بے چین جگر اور منہ کو کلیجا آتا ہے ماحول پہ وحشت طاری ہے جی آج مرا گھبراتا ہے کیا یہ بھی کوئی بیماری ہے یا عشق اسی کو کہتے ہیں تسکین جو کوئی دیتا ہے دل اور بھی بیٹھا جاتا ہے الوداع (حالات سے متأثر ہوکر) ہر لمحہ سکونِ دل ہو جہاں اک ایسی منزل ڈھونڈینگے طوفاں نہ جہاں پر کوئی اٹھ۔۔۔
مزید