بدھ , 26 جمادى الآخر 1447 ہجری (مدینہ منورہ)
/ Wednesday, 17 December,2025

سوبہن مجذوب﷫

  آہ اہل حال میں سے تھے، اور صاحب تصوف بھی تھے، آپ غیر مسلم تھے دامن اسلام میں جگہ ملی، حضرت شیخ علاء الدین اجودہنی قدس سرہ کی جو حضرت فریدالدین گنج شکر قدس سرہ کے پوتے تھے۔ خدمت میں رہتے عشق و مستی میں مجذوب ہوگئے، ساری عمر اپنے پیرو مرشد کی خدمت میں گزار دی، آپ کی عادت تھی کہ بعض اوقات کئی کئی ہفتے کھانا نہ کھاتے اور پانی نہ پیتے لیکن جب کھانے پر آتے تو کئی کئی آدمیوں کا کھانا بیک وقت کھاجاتے اور پوری مشک پانی پی جاتے، ایک بار آپ چونے کے ایک ڈھیر پر بیٹھے تھے، اور چونا کھانے لگے، لوگوں نے پوچھا سو بہن کیا کھا رہے ہو، کہنے لگے کیا کروں یہ بدبخت نفس ہمیشہ کھانے کی خواہش کرتا ہے آج اسے چونے کی مار ماروں گا۔ آپ کی وفات صاحب شجرہ چشتیہ نے ۷۲۸ھ لکھی ہے۔ شیخ سوبہن صاحب جذب الٰہ شد چودر فردوس از ہاتف عیاں   بود بر چرخ یقین بدر الکمال بس حبیب جاذب آمد ارتحال ۷۲۸ھ (حدائق الا۔۔۔

مزید

میاں سر ننگا قدس سرہ

  یہ مجذوب ہانسی (ہندوستان) میں رہا کرتے تھے، یہ وہی زمانہ تھا، جب حضرت گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ بھی ہانسی میں قیام پذیر تھے، میں سر ننگا بسا اوقات حضرت گنج شکر کی مجلس میں آکر بیٹھتے حضور بھی آپ سے بے حد محبت کرتے، حضرت گنج شکر کے خلیفہ حضرت خواجہ خطب الدین  بختیار اوشی قدس سرہ دہلی میں تشریف لائے اور سجادہ مشیخیت پر جلوہ فرما ہوئے، تو میاں سر ننگا مجذوب بھی دہلی میں آگئے حضرت نماز جمعہ ادا کرنے کے لیے مسجد تشریف لاتے تو راستے میں میں سر ننگا مجذوب دوڑے دوڑے آتے اور آپ کی قدم بوسی کرتے اور رونا شروع کردیتے اور کہا کرتے کہ ہانسی میں مجھے آپ کی صحبت میسر ہوتی تھی، مگر دہلی میں آکر ہجوم خلق کی وجہ سے اس نعمت سے محروم ہوگیا ہوں، آپ اُس کی باتیں سنتے تو بڑے مغموم ہوتے، اُسے تسلی دیتے ایک بار آپ نماز جمعہ سے فارغ ہوئے اور سر ننگا کو ساتھ لے کر ہانسی چلے گئے اس سفر کے بعد ہانسی میں میاں ۔۔۔

مزید

بی بی جمال خاتون قدس سرہا

  آپ حضرت میاں میر قادری لاہوری قدس سرہ کی ہمشیرہ تھیں، آپ عارفات و کاملات میں سے تھیں، ترک و تجرید میں رابعہ وقت تھیں، طریقہ فقر و سلوک اپنے بھائی، اپنی والدہ اور اپنی دادی سے حاصل کیا تھا، آپ سے بے شمار کرامتیں اور خوارق ظاہر ہوئی ہیں۔ سفینہ الاولیاء کے مولف جناب داراہ شکوہ فرماتے ہیں کہ ایک بار آپ نے دو سیر غلط اپنے ہاتھ سے ایک برتن میں ڈالا، آپ کا معمول تھا کہ ہر روز ضرورت کے مطابق اسی برتن سے غلہ نکالتیں، رشتہ داروں سائلوں اور فقیروں کو تقسیم کرتی رہیں، یہ سلسلہ ایک سال تک جاری رہا، کسی نے دیکھ لیا، تو یہ سلسلہ منقطع ہوگیا۔ ایک دن کسی عقیدت مند نے مچھلی کا شکار کرکے بی بی جمال کی خدمت میں پیش کی، آپ اس وقت تشریف فرما تھیں، مچھلی پر نگاہ ڈالی تو نور کی ایک کرن نمودار ہوئی، فرمانے لگیں، یہ بڑی بابرکت مچھلی ہے، اسے محفوظ کرلو کہتے ہیں ایک عرصہ تک وہ مچھلی آپ کے حوض میں محفوظ رہی، اس۔۔۔

مزید

بی بی فاطمہ سیّدہ گیلانی قدس سرہا

  حضرت میراں محمد شاہ موج دریا بخاری لاہوری قدس سرہ کی زوجہ محترمہ تھیں، اور سیدی صفی الدین کی والدہ مکرمہ تھیں، آپ سادات گیلانیہ میں سے تھیں، آپ کے والد کا اسم گرامی سید عبدالقادر ثالث بن سید عبدالوہاب بن سید محمد بالا پیر گیلانی تھا، آپ نہایت ہی بزرگ عابدہ، زاہدہ اور متقیہ تھیں، آپ صاحب کرامت و خوارق تھیںِ، شرافت و نجابت وراثت میں ملی تھی، بی بی کلاں (بڑی بی بی صاحبہ) کے نام سے شہرت رکھتی تھیں۔ ایک بار آپ اپنے گھر میں تھیں، آپ کی چادر مبارک کسی وجہ سے مشکو ہوگئی، جسے دھو کر آپ نے دھوپ میں ڈالا تاکہ خشک ہوجائے چونکہ عصر کا وقت تھا، سورج کی دھوپ صرف آپ کے صحن کےا س درخت  کے ایک کونے پر  پڑ رہی تھی  جو گھر کے ایک گوشے میں تھا آپ درخت کے پاس آکر کہنے لگیں میں تو تمہاری شاخوں پر چادر ڈالنا چاہتی ہوں، مگر تمہاری شاخیں تو بہت اونچی ہیں، فوراً درخت نے اپنا سر جھکا دیا، آپ نے ۔۔۔

مزید

عارفہ کاملہ بی بی لَلَہ کشمیری قدس سرہ

  آپ خطۂ کشمیر بے نظیر کی عارفہ کاملہ تھیں، آپ بی بی ملالی کے نام سے شہرت رکھتی تھیں، کشف القلوب اور کشف قبور میں اپنا ثانی نہیں رکھتی تھیں، خوارق و کرامت میں اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی تھی، آپ کے والدین نے سلطان رنجو شاہ کے ساتھ اسلام قبول کیا تھا اور حضرت بل بل شاہ کشمیری جنہوں نے وادیٔ کشمیر میں اسلام پھیلایا تھا کی خدمت میں حاضر ہوئیں بی بی لَل بھی اپنے والدین کے ساتھ ہی حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئی، اس وقت آپ کی عمر نو سال تھی، حضرت بل بل شاہ نے آپ کو اپنی بیٹی بنالیا، اور بڑی نظرِ شفقت رکھتے تھے، آپ فرمایا کرتے تھے کہ لَلَ بی بی عارفہ کاملہ ہوں گی، آپ جوان ہوئیں تو والدین نے آپ کی شادی ایک ایسے شخص سے کی جو آپ کے مقام اور عرفان سے ناواقف تھا، بی بی لَلہ ظاہر میں گھر کا کام کاج کرتیں مگر رات بھر یاد خداوندی میں مشغول رہتیں دن کے وقت کام کے دوران میں یاد خداوندی سے غافل نہ ہوئ۔۔۔

مزید

بی بی اولیاء قدس سرہ

  آپ اپنے وقت کی صالحات میں سے تھیں، دہلی میں سکونت رکھتی تھیں صاحب الاخبار الاخیار نے لکھا ہے کہ آپ چالیس دن تک اپنے حجرے میں رہتیں، اسی دوران اپنے ساتھ چالیس کھجوریں رکھ لیتیں، چالیس دن مکمل ہوتے تو کھجوریں تمام کی تمام موجود ہوتیں۔ سلطان محمد تغلق آپ کا عقیدت مند تھا، آپ کی وفات ۶۵۵ھ  میں ہوئی۔ رفت از دنیا چو در خلد بریں ارتحال او چو جستم از خرد   عارفہ والا ولیہ اولیاء مستقیہ گشت از رضوان ندا ۶۵۵ھ (حدائق الاصفیاء)۔۔۔

مزید

بی بی فاطمہ سام قدس سرہا

  آپ اپنے زمانہ کی صالحات قاتتات، اور عارفات میں سے تھیں، حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء اور دوسرے بزرگانِ جنت کے ملفوظات میں آپ کا ذکر ملتاہے کہتے ہیں کہ حضرت سلطان المشائخ بی بی فاطمہ کے روضہ میں بہت مشغول ذکر رہا کرتے تھے حضرت فرید الدین گنج شکر فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے فاطمہ سام کو عورتوں کی شکل میں مرد حق بناکر بھیجا ہے آپ کو حضرت شیخ مسعود شکر گنج اور شیخ نجیب الدین ترک سے رابطہ تھا  اخبار الاخیار میں لکھا ہے کہ حضرت خواجہ نظام الدین دہلوی فرمایا کرتے تھے کہ بی بی فاطمہ سام بڑی صاحب تقویٰ اور باصلاحیت عورت تھیں، وہ نہایت بوڑھی ہوچکی تھیں جب میں نے انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھا وہ ایک محبوب خدا عورت تھیں، بعض اوقات مناسب احوالِ خود اشعار کہتیں، ان کا ایک شعر مجھے ابھی تک یاد ہے۔ ہم عشق طلب کنی وہم جاہ بخواہی   ہر دو طلبی اوے تیسر نشود آپ ۶۴۳ھ میں فوت ہ۔۔۔

مزید

شاہ عبدالمجید بدایونی

حضرت شاہ عبدالمجید بدایونی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ قدوۃ العلماء، زبدۃ العرفاء، عروس حجلۂ تقدیس، نوشاہ خلوت توحید، حضرت مولانا شاہ عین الحق عبد المجید سرمست بادہ توحید حضرت شاہ عبد الحمید عثمانی المتوفی ۱۲۳۳ھ کے بڑے صاحبزادے ۲۹؍رمضان المبارک ۱۱۷۷ھ کو پیدا ہوئے،‘‘ ظھور اللہ ’’تاریخی نام تجویز ہوا، بزرگ خاندان اور والد ماجد کے پھوپھا بحر العلوم حضرت مولانا شاہ محمد علی عثمانی اور اپنےماموں حضرت مولانا محمد عمران خطیب اور پھوپھا حضرت مولانا مفتی شاہ عبدالغنی قدست اسرارھم سے پڑھنے کے بعد لکھنؤ میں حضرت مولانا ذوالفقار علی دیوی سےتکمیل علوم کی، باشارہ حضور سرور کائناتفخر موجودات صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم حضرت شاہ اچھے میاں کو خبر ہوجاتی تو حضرت وطن جانے کی تاکید فرماتے، آپ اچھا کہہ کر تعمیل حکم والا کا قصد فرماتے لیکن دل جدائی پر راضی نہ ہوتا، ادھر اُدھر پھر کر حاضر ۔۔۔

مزید

بی بی سارہ قدس سرہ

  آپ حضرت شیخ نظام الدین ابوالموید قدس سرہ کی والدہ تھیں، ریاضت و عبادت میں بے نظیر تھیں، فقہیہ اور بزرگ تھیں۔ ایک بار دہلی میں بارش کی کمی سے خشک سالی ہوگئی، خلق خدا حضرت شیخ نظام الدین ابوالموید کی خدمت حاضر ہوئی، حضرت شیخ منبر پر تشریف فرما ہوئے، اللہ کے حضور میں التجائے باران کرتے وقت اپنی والدہ ماجدہ کا ایک پرانہ کپڑا اپنی جیب سے نکالا اور اپنے ہاتھوں پر رکھ لیا اور کہنے لگے اے اللہ اپنی نیک بندی کے اس کپڑے کی طفیل ہمیں نا امید نہ فرما اور بارش بھیج دے دعا کے فوراً بعد بادل کا ایک ٹکڑا نمودار ہوا اور شدید بارش ہوئی۔ حضرت بی بی سارہ کا سالِ وفات ۶۳۸ھ تھا، آپ کا مزار دہلی میں حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی قدس سرہ کے متصل ہے۔ رفت چوں سارہ زین جہان فنا گفت تاریخ رحلتش سرور   گشت در جنت خدا ولی قدس  اللہ سرہ العالی ۶۳۸ھ (حدائق الاصفیاء)۔۔۔

مزید

فاطمہ بنت نصر بن عطار قدس سرہا

  سیدہ عالی قدر تھیں زہد و ریاضت میں کمال رکھتی تھیں مجاہدہ میں مقام بلند کی مالک تھیں، بڑے مدارج پر فائز تھیں کہتے ہیں اپنی ساری زندگی میں صرف تین بار گھر کی چار دیواری سے باہر قدم رکھا، آپ کی وفات  ۵۷۳ھ میں ہوئی۔ فاطمہ عالمہ کز فضل خویش سالِ وصالش چو بجستم ز دل   بُرد ز دنیاش بجنت خدا گفت بگو مشفقۂ اولیا (حدائق الاصفیاء)۔۔۔

مزید