لاہور میں قیام پذیر تھے، بڑے بلند قامت جسیم، مہیب شکل اور توانا تھے، بہت بڑی پگڑی زیب سر رکھتے تھے، صاحب کشف جلی اور اشراق باطن تھے۔ شیخ قطب العالم فرماتے ہیں میں نے ایک بار شیخ یوسف کو لاہور کی منڈی میں کھڑے پایا، بڑی عارفانہ اور پُراسرار گفتگو فرما رہے تھے مجھے دیکھا تو بڑی راز دارانہ باتیں کرنے لگے ایسی باتیں ظاہر کیں جو علام الغیوب ہی جانتا تھا۔ (حدائق الاصفیاء)۔۔۔
مزید
لاہور میں قیام پذیر تھے وقت کے مجاذیب میں سے تھے۔ جذبہ قومی کے مالک تھے۔ صاحب اخبار الاخیار لکھتےہیں کہ ہم ایک بار لاہور گئے شیخ حسن بودلہ سے ہمیں بہت انس تھا، وہ بھی ہمارے ساتھ ہی تھے، ایک دن میاں مونگر بھی ہماری مجلس میں آپہنچے ان کی نگاہیں شیخ حسن بودلہ پر پڑیں فرمانے لگے تم یہاں کیوں آئے ہو تمہیں ان حضرات سے کیا واسطہ ہے، شیخ حسن اسی وقت مجلس سے بھاگ گئے اس دن کے بعد کسی نے انہیں لاہور میں نہیں دیکھا دہلی دروازے تک دوڑتے نظر آئے۔ آپ کی وفات ۹۸۰ھ میں ہوئی۔ جناب شیخ مونگر عاشق مست چو سالِ ارتحالش جست سرور چودر خلد معلیٰ یافت توفیق عیاں شد از معلیٰ پیر تحقیق (حدائق الاصفیاء)۔۔۔
مزید
حضرت علامہ مفتی محمد مشرف احمد رضوی مظہری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ولادت اور تعلیم حضرت مولانا مفتی محمد مشرف احمد علیہ الرحمۃ دہلی میں پیدا ہوئے، حفظ قرآن اور تجوید وقرأت کی تکمیل کے بعد ۱۳۵۱ھ؍۱۹۲۳ء میں مدرسہ عالیہ مسجد جامع فتحپوری دہلی سے علوم عقلیہ و نقلیہ میں سند تکمیل حاصل کی، اس کے ساتھ ساتھ فن طب میں سند حاصل کی، اورمہارت تامہ پیدا کی ابتدا میں کچھ عرصہ دہلی میں رہے اور مسجد جامع فتحپوری میں نائب مفتی کے فرائض انجام دیتے رہے۔ پھر قصبہ نوح میں گورنمنٹ ہائی اسکول میں استاد ودینیات مقرر ہوگئے۔ چند سال یہاں گزار کر پھر دہلی تشریف لے آئے اور یہاں مسجد شیخان (باڑہ ہند وراؤ) میں خطیب مقرر ہوئے۔ سالہا سال فرائض خطاب اور امامت انجام دیتے رہے اس کے علاوہ مطب بھی فرماتے۔ علم وفضل مفتی محمد مشرف احمد علیہ الرحمہ فن قرأت، حف قرآن کریم، علوم عربیہ، بالتخصیص فقہ اسلامی پر کمال رکھتے تھے اور اپنی م۔۔۔
مزید
ہ آپ کا اسم گرامی عبدالغفور تھا ، آپ کا وطن کالپی تھا ابتدائی عمر میں راہ سلوک پر بڑی ریاضتیں کیں، لوگوں کو پانی پلاتے تھے، رات کے وقت غریبوں کے گھروں میں جاتے اور ان کے برتن پانی سے بھر دیا کرتے تھے، آخر کار جذبۂ حقیقی نے انہیں مجذوب بنادیا، گوالیار میں آئے آپ پر فتوحات کے دروازے کھل گئے عام طور پر حالت استغراق میں رہتے تھے جب حالتِ عام میں آتے تو چنوں کے چند دانے کھالیتے لباس صرف اتنا ہی پہنتے جس سے ستر عورت ہو ، لوگ آپ کی خدمت میں بڑے عمدہ اور نفیس کپڑے لایا کرتے تھے، تو آپ ان سے لے کر غریبوں میں تقسیم کردیا کرتے تھے، بعض اوقات پوست کے پتے کھاتے، آپ کا سلسلہ روحانیت شاہ مدار سے ملتا تھا، آپ بسا اوقات غیب کے اسرار سے آگاہ کردیا کرتے تھے۔ اخبار الاخیار میں آپ کی وفات ۹۷۹ھ میں لکھی ہے ایک تذکرہ نگار نے لفظ کہور مجذوب (۹۷۹ھ) سے تاریخ وفات نکالی ہے۔ رفت از دنیا چو در خلد بریں۔۔۔
مزید
طالبان حق کی تربیت اور ارشاد میں مصروف رہتے تھے۔ اذکار و عبادات میں مصروف تھے۔ دنیا کا بڑا سفر کیا اور بڑی نعمتیں حاصل کیں۔ آپ کو تسخیر ارواح اور تصرفات اجسام میں کمال حاصل تھا۔ اس تصرّف کی وجہ سے ماضی کے پوشیدہ اسرار اور مستقبل کے حالات سے باخبر رہتے تھے۔ کہتے ہیں کہ آپ قرآن پاک کی تجوید میں فریدالدّھر تھے ۔ آپ کو حضورﷺ کی بارگاہ میں قرآن سنانے کا شرف حاصل تھا۔ حضرت عبدالقدوس گنگوہی جو فرد زمانہ تھے آپ کو قرآن سناتے اور ایک عرصہ تک آپ کی خانقاہ میں قیام پذیر رہے۔ آپ کی وفات چودہ (۱۴) محرم الحرام کی رات ۹۴۴ھ میں ہوئی۔ آپ کا مقبرہ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار اوشی کے مزار کے عقب میں ہے۔ سلیمان ولی ہادی متقی شود سالِ ترحیل آن شاۂِ دین سفر کرد چوں از جہاں درجنان ز شاہ ولایت سلیماں عیاں ۹۴۴ھ (خزینۃ الاصفیاء) ابن عفان مندوی دہلوی کے فرزند ارجمند تھ۔۔۔
مزید
آپ اجمیر شریف میں رہا کرتے تھے، حضرت خواجہ خواجگان معین الدین اجمیری کی درگاہ کے دروازے پر پڑے رہتے تھے بڑے مقامات اور تصرفات کے مالک تھے، حضرت حمزہ قدس سرہ فرماتے ہیں کہ میں ابتدائے عمر میں اجمیر شریف گیا، میں نے بابن مجذوب کو دیکھا میں کٹار اور دوسرا اسلحہ بدن سے لگائے کھڑا تھا بابن مجذوب نے مجھے پکڑ لیا اور کہا یہ کیا ہے؟ میں نے بتایا کہ یہ ہتھیار ہیں، انہیں اپنے پاس رکھنا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے میرے پاس دو کنگھیاں بھی تھیں، دونوں لے کر دور پھینک دیں، اور ایک کنگھی اپنی طرف سے مجھے دی، میں نے دیکھا کہ اسی وقت میرے سر کے بال مونڈھ گئے اور میں بالوں سے محروم ہوگیا، اسی وقت یہ خبر آئی مجھے شیخ احمد مجدد نے دی کہ قاضی کریم الدین کا بیٹا تارک الدنیا ہوکر اجمیر شریف آیا ہوا ہے مجھے اپنے گھر لے گئے مجلس میں دیکھا کہ بابن مجذوب بھی موجود ہیں، کھاان کھانے لگے تو ۔۔۔
مزید
آپ سید حاجی عبدالوہاب بخاری قدس سرہ کے فرزند ارجمند ہیں، جن کا ذکر خیر خانوادۂ سہروردیہ میں گزرا ہے، آپ اکثر کامل سُکر اور حالت مستی میں رہتے تھے، جن دنوں تعلیم حاصل کرتے تھے اپنے ہم شعبوں سے التماس کرتے کہ انہیں سبق یاد کرائیں، اور فرمایا کرتے تم نے تو ساری عمر پڑھتے رہنا ہے مجھے اور کام بھی کرنے ہیں، اللہ ہی جانتا ہے کہ میرا کیا حال ہونا ہے، چنانچہ آپ نے مروجہ علوم اور متداولہ کتب پر عبور حاصل کرلیا، پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے جذبہ و مستی سے سرشار کرلیا اور آپ مجذوب ہوگئے۔ ایک دفعہ آپ کے گھر پر روٹیاں پکائی جا رہی تھیں توا سخت گرم تھا، آپ باہر سے آئے دونوں پاؤں توے پر رکھ لیے مگر آپ کو کچھ نہ ہوا، اور کسی قسم کی سوزش پاؤں پر نہ آئی۔ ایک دن اپنے بزرگوں کے مزارات کی زیارت کو گئے فاتحہ کے بعد کہنے لگے اگر اللہ تعالیٰ کو منظور ہوا تو میں بھی کل تک آپ لوگوں کے پاس سوؤں گا، گھر ۔۔۔
مزید
آپ دہلی کے اکابر کی اولاد میں سے تھے، وہ فطری اور پیدائشی طور پر مجذوب تھے، آپ کے اوضاع و اطوار عام دنیا کے لوگوں سے مختلف تھے، عجیب و غریب شکل و صورت تھی، بسا اوقات ننگے پھرا کرتے، لوگ جو کچھ دیتے قوالوں کو بخش دیتے یا دوسرے حاضرین پر نچھاور کردیتے، وقت کے ایک شیخ نے آپ کو خواب میں دیکھا کہ آپ بارگاۂ رسالت میں حاضر ہیں، اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کرانے کی خدمت میں مشغول ہیں، بعض حاجی مکہ مکرمہ سے واپس آتے تو دہلی آکر کہتے امسال ہم نے شیخ حسن بودلہ کو حج کے موقعہ پر دیکھا ہے۔ اخبار الاخیار میں آپ کا سالِ وفات ۹۶۴ھ لکھا ہے، اور مزار دہلی میں ہے۔ چو رفت از دہر دنیا متصل شد عجب تاریخ وصل جلوہ گرشد بوصل حق حسن محبوب احسن ز محبوبِ الٰہ مجذوب احسن ۹۶۴ھ (حدائق الاصفیاء)۔۔۔
مزید
آپ کو شیخ علاول بلاول بھی کہا جاتا ہے کشف حال اور دلوں کے اسرار سے واقف تھے، آپ کی خدمت میں جو بھی آتا اس کی دلی کیفیت آپ پر عیاں ہوتی ابتدائی زندگی سامانہ میں گزار دی، پھر دہلی میں چلے آئے طالب علموں کے پاس رہا کرتے جذبۂ حقیقی کا زور ہوا تو اکبرآباد چلے گئے ایک عرصہ تک مجرد رہے، ایک عرصہ کے بعد آپ سے کرامات کا ظہور ہونے لگا تو مخلوق خدا آپ کے ارد گرد منڈلانے لگی، آپ بھی ضرورت مندوں کی طرف توجہ فرمایا کرتے تھے بے اولاد لوگ آپ کی دعا سے صاحب اولاد ہوجاتے تھے۔ اخبار الاخیار کے مؤلف نے لکھا ہے کہ میرے چچا زرق اللہ فرمایا کرتے تھے کہ ایک بار میرا ایک بیٹا گم ہوا، مجھے بڑا صدمہ ہوا میں اس کے غم میں نڈھال ہوگیا، میں نے سوچا اس غم سے بچنے کے لیے یا تو صدقہ کروں یا قرآن کی تلاوت کرتا رہوں، اسمائے الٰہیہ کا ورد کرتا رہوں، اسی دوران مجھے شیخ علاء الدین مجذوب کے پاس جانے کا اتفاق ہ۔۔۔
مزید
ہندوستان کی سر زمین میں یہ مجذوب صاحب کرامات جلیلہ ہوئے ہیں کشف کی دولت میسر تھی، ہمایوں بادشاہ گجرات پہنچے تو ایک درباری کو آپ کی خدمت میں بھیجا تاکہ دربار میں تشریف لائیں اس درباری کے پاس تیروں کا ایک ترکش تھا، آپ نے ایک تیر نکالا اس کا سرا کاٹ کر پھر ترکش میں رکھ دیا وہ شخص بادشاہ کی خدمت میں آیا اور صورت حال بیان کی، ہمایوں نے کہا مجھے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مہم فتح نہ ہوگی اور ہمیں بے سر و سامانی کے عالم میں واپس جانا ہوگا تاہم ہماری جان بچ جائے گی کیونکہ شاہ منصور نے ہمارے تیر کو ترکش میں رکھ دیا تھا۔ شیخ سیّد عبدالوہاب قدس سرہ فرمایا کرتے تھے کہ شاہ منصور مجذوب نے شاہ بکہاری کے وضو کا باقی ماندہ پانی پیا تھا، اس دن سے مجذوب ہوگئے، آپ کی وفات ۹۴۷ھ میں ہوئی تھی۔ شاہ منصور شد چو از دنیا گفت تاریخ رحلتش سرور گشت باوصل ایز دی موصول شاہ منصور عابد مقبول ۹۴۷ھ ۔۔۔
مزید