حضرت ملوک شاہ میاں علیہ الرحمۃ میاں ملوک شاہ نے اپنے والد شیخ عثمان بقول علیہ الرحمہ کی صحبت سے فیض پایا تھا، وہ سلوک کی منازل طے کر کے بقاء باللہ کی منزل تک پہچ گئے تھے، مزار مکلی پر ہے۔ (تحفۃ الطاہرین ص ۷۴۔ تحفۃ الکرام ص ۲۵۷ ج۳) (تذکرہ اولیاءِ سندھ )۔۔۔
مزیدحضرت موسیٰ آھیدنی شیخ علیہ الرحمۃ دراصل یہ بزرگ سلطان علاوالدین خلجی کے عہد میں سر زمین سندھ می تشریف لائے تھے، وفات کے بعد بھی آپ کی کرامات ظاہر ہوتی رہیں آپ کا مزار فیض آثار نہر سانکرہ کے کنارے ہے۔ (حدیقۃ الاولیاء ص ۱۸۹) (تذکرہ اولیاءِ سندھ )۔۔۔
مزیدحضرت محمد ابراہیم سخی جیلانی علیہ الرحمۃ آپ حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اولاد امجاد سے ہیں آپ کا نام نامی اسم گرامی حضرت سخی محمد ابراہیم جیلانی وجڑی والا ہے ‘‘وج’’ سندھی زبان میں بجلی کو کہتے ہیں آپ کو وجڑی والا کہنے کی وجہ یہ ہے کہ آپ کے کسی عقیدت مند نے جیسے ہی آپ کو امداد کے لیے پکارا آپ بجلی کی طرح فوراً پہنچ جایا کرتے تھے۔آپ بڑے فیاض ، صاحب نظر اور سخی تھے آپ کی بے شمار کرامات ہیں۔ بڑے بڑے اولیائے وقت آپ کے مزار پر حاضر ہوا کرتے تھے اور اب بھی حاضر ہوتے ہیں ، آپ کسی کو بھی خالی نہیں لوٹا تے ہیں جو بھی صدق نیت سے آپ کے مزار پر جس جائز مقصد کے لیے حاضر ہوا جھولیاں بھر کر جاتا ہے۔ مزید حالات معلوم نہ ہوسکے۔ آپ کو ‘‘گنجے کا ۔۔۔
مزیدحضرت ملوک سیدعلیہ الرحمۃ سید ملوک قدس سرہ ماژندران کے سادات سے تھے ٹھٹھہ میں آکر مقیم ہوئے آپ کو معلوم ہواوسہ جوگی مسلمانوں کے ہمراہ جنگ کر رہا ہے حضرت بھی ذوق شہادت میں اسی جانب روانہ ہوئے اور جہاد کی حالت میں شہید ہوگئے۔ آپ کے خدام آپ کی نعش کو کاندھوں پر اٹھا کر اس جگہ لائے جہاں اب آپ دفن ہیں کہتے ہیں کہ جنازہ کو نماز کے لیے اس جگہ رکھا گیا پھر نماز کے بعد کوشش کی گئی کہ نعش کو یہاں سے مکلی لے جایا جائے اور دفن کیا جائے مگر نعش جگہ سے نہ ہٹی اس رات لوگ وہیں رہے رات کو خواب میں دیکھا آپ فرمارہے ہیں میری نعش کو یہیں دفن کرو، آپ کا مزار ٹھٹھہ شہر میں ہے، ربیع الثانی کے مہینہ میں گیارہویں شریف کے موقع پر بڑا اجتماع ہوتا ہے۔ (تحفۃ الطاہرین ص ۱۶۸) (تذکرہ اولیاءِ سندھ )۔۔۔
مزیدحضرت شاہ عبد القادر دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نام ونسب: اسم گرامی:شاہ عبدالقادر دہلوی۔سلسلہ نسب اس طرح ہے:حضرت شاہ عبدالقادر بن شاہ ولی اللہ بن عبدالرحیم بن وجیہ الدین شہید بن معظم بن منصور بن احمد بن محمود بن قوام الدین۔الی اخرہ۔آپ کاسلسلہ نسب حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ تک پہنچتاہے۔آپ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے تیسرے صاحبزادے ہیں۔ تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت 1166ھ،مطابق 1753ء کو"دہلی" میں ہوئی۔ تحصیل علم: آپ کےوالد حضرت شاہ ولی اللہ کاوصال ان کےمیں ہی ہوگیاتھا،آپ کی تعلیم وتربیت برادر اکبر حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ کےزیر نگرانی ہوئی۔تمام علوم کی تحصیل وتکمیل حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ سے فرمائی۔ بیعت وخلافت: حضرت شاہ عبدالقادر نےشاہ عبدالعدل سےسلوک کی منازل طےکیں،اوران کےدست پر بیعت ہوئے۔ سیرت وخصائص: عالم ،عامل،فقیہ فاضل، ز۔۔۔
مزیدحضرت مولانا حامد علی فاروقی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ضلع پر تاب گڈھ وطن،وہیں پیدا ہوئے،مدرسہ منظر اسلام بریلی کے اساتذہ مولانا نور الحسین رام پوری،مولانا رحم الٰہی منگلوری سے درسیات پڑھ کر ۱۳۴۰ھ میں سند تکمیل حاصل کی،اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا قدس سرہٗ سے دورِ طالب علمی ہی میں مرید ہوگئے تھے،فراغت کے بعد تجارت کو شغلہ بنایا، کمبل کے کاروبار کے سلسلہ میں ۱۹۲۲ھ میں رائے پور گئے،گاؤں گاؤں پھر تجارت کے ساتھ تبلیغی فریضہ انجام دینے لگے،اسی سنہ میں بغاوت کے جرم میں گرفتار کرلئے گئے،دوسال بعد رہائی پائی،رائے پور میں تعلیم کے فروغ اور اشاعت مذہب اہل سنت کے لیے کرایہ کے مکان میں مسلم یتیم خانہ قائم کیا، آل انڈیا کانگریس کمیٹی کی ورکنگ کمیتی کے ممبر تھے،نہر وشاستری کے ساتھ جیل کی رفاقت رہی،سیاسی بصیرت بہت بہتر تھی،بیعت بھی لیتے تھے،۲۶؍محرم ۱۳۸۸ھ کی صبح کو چار بجے وفات ہوئی،مرقد رائےپور میں ہے۔۔۔۔
مزیدحضرت مولانا صوفی حامد علی (لیہ) رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ حضرت مولانا صوفی حامد علی قدس سرہ اپنے دور کے بہترین مدرسین میں شمار ہوتے تھے ، موجودہ دور میں تقوی وپر ہیز گار ی کے اعتبار سے سلف صالحین کا نمونہ تھے۔آپ کے ابتدائی حالات معلوم نہ ہو سکے ، راقم نے سیال شریف میں آپ سے نحو میر پڑھنے کی سعادت حاصل کی تھی ، ان جیسے انہماک سے پڑھاتے ہوئے بہت کم اساتذہ کو دیکھا گیا ہے۔ حضرت مولانا صوفی حامد علی قدس سرہ سلسلہ ٔ عالیہ نقشبندیہ میں حضرت پیر بار و دام ظلہ العالی سے بیعت اور مستفیض تھے ۔ طویل عرصہ تک سیال شریف میں پڑھاتے رہے پھر غالباً 61ء یا 1962ء میں ضلع لیہ میں جامعہ نعیمیہ رضویہ کی بنیاد رکھی ، تدریس کے لئے بہترین مدرسین کا انتظام کیا، گردو نوح کے متلا شیان علم دین جوق در جوق آنے لگے اور تھوڑے ہی عرصہ میں مدرسہ ایک مثالی درس گاہ بن گیا۔ 19رجب، 16 جولائی ( 1396ھ/1976ء) بروز۔۔۔
مزید