ہوتی شیخ علیہ الرحمۃ علیہ الرحمۃ شیخ ہوتی صاحب قال وحال بلند پایہ بزرگ تھے سر تاپا سرخ لباس پہنے، تیر و کمان لیے سماع کی محافل میں شرکت کرتے ،اور عالم و جد و مستی میں رقصاں رہتے، آپ صاحب کرامت بزرگ تھے، آپ سے کئی کرامات منسوب ہیں۔ ایک اژدھا جو مسافروں کا راستہ روکتا تھا، اس پر نگاہ ڈالی تو جلا کر خاکستر کردیا۔ جب آپ کا وصال ہوا تو بے شمار اولیاء کرام و علمائے عظام نے نماز جنازہ میں شرکت کی آپ کا مزار پر انوار موریانی کے مقام پر جنگل کی طرف ہے۔ (حد یقۃ الاولیاء ص ۱۰۸ ) (تذکرہ اولیاءِ سندھ )۔۔۔
مزیدحضرت یتیم مردانعلیہ الرحمۃ حضرت یتیم مردان اتی مردان کے نام سے معروف ہیں ہند سے سرزمین سندھ میں تشریف لائے،سید محمد شجاع المعروف بہ نا تھن شاہ سجا دہ نشین سید شاہ مراد قدس سرہ بسا اوقات ان کی زیا رت کو آتے اور یہ شعر پڑھتے تھے۔ اتی مردان بحق شاہ مرداں مرا محتاج نا مرواں مگر داں آپ کا مزار فیض آ ثا ر ٹھٹھہ کے محلہ قند سرمیں مر جع خلا ئق ہے۔ (تحفتہ الطا ہرین ص ۱۳۵ ) (تذکرہ اولیاءِ سندھ )۔۔۔
مزیدحضرت واریہ سید علیہ الرحمۃ عزلت پسند بزرگ تھے،زندگی بھرمجرد رہے آپ کا مزار قا ضیوں کے با ڑہ میں مسجد کے متصل واقع ہے،یہ جگہ ٹھٹھہ کے محلہ مغل وارہ میں ہے۔ (تحفتہ الطا ہرین ص ۱۲۷ ) (تذکرہ اولیاءِ سندھ ) ۔۔۔
مزیدحضرت ورد شیرازی سید علیہ الرحمۃ سید ورد شیرازی پر استغراق کا عالم بسا او قا ت طا ری رہتا تھا،آپ کا معمول تھا کہ نماز عشا ء کے بعد مکلی جا تے اور صبح کو آتے،سید سو مار اور سید حسین مسا فر ہندی کی قبروں کے پا س ٹھٹھہ کے محلہ مغل وارہ میں آسودہ خواب ہیں۔ (تحفتہ الظا ہرین ص ۱۳۲ ) (تذکرہ اولیاءِ سندھ )۔۔۔
مزیدحضرت کھتوریہ پیر علیہ الرحمۃ آپ مستجاب الدعوات بزرگ تھے۔ اکثر اوقات ریاضت و مجاہدہ میں صرف کرتے ، آپ کے مکان کے قریب نواب کا ایک منہ چڑھا ملازم بھی رہتا تھا، جو آپ کی اذیت رسانی کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہ جانے دیتا تھا۔ جب پانی سر سے چڑھ گیا تو حضرت نے نواب سے داد رسی چاہی، مگر نواب نے ظالم ہی کا ساتھ دیا ۔ اس پر وہ ملازم مزید فرعون ہوگیا، بالا خر آپ کی غیرت کو جش آگیا اور یہ کلمہ مند سے ادا فرمایا ‘‘روزے باشد کن نواب رابد ار کشند، و سار جمل رازندہ در چاہ کند’’ کہتے ہیں کہ دوبارہ شاہجہاں بادشاہ اپنے باپ سے رنجیدہ ہوکر ٹھٹھہ میں آیا۔نواب شریف الملک مذکور نے علم بغاوت بلند کیا، شاہجہان کو غلبہ حاصل ہوا، اس نے جو پہلا حکم جاری کیا وہ یہی تھا کہ نواب کو گرفتار کیا جائے اور اونٹ سوار۔۔۔
مزیدحضرت گھمن درویش علیہ الرحمۃ آپ مخدوم نوح کے مریدوں میں سے ہیں، عشق الٰہی میں بے تابی اس درجہ تھی کہ کبھی دراز قدم نہ ہوئے ایک مرتبہ صحرا سے تنہا رہے تھے حال کی کیفیت طاری ہوگئی وہیں محفل سماع منعقد کی جنگلی جانور ہر چہار طرف سے اکٹھے ہوگئے اور جب تک آپ سماع مصروف رہے کوئی جانور اپنی جگہ سے نہ ہلا، ٹھٹھہ شہر میں مزار ہے۔ (تحفۃ الطاہرین ص ۱۷۱) (تذکرہ اولیاءِ سندھ )۔۔۔
مزیدحضرت گر گنج شاہ علیہ الرحمۃ یہ ایک مجذوب صفت بزرگ تھے، سید احمد شیرازی جیسے عظیم بزرگ بھی ان کی خدمت میں بسا اوقات حاضری دیتے تھے، مجذوب صاحب نے ان کو سید مراد کی ولادت کی خبر پہلے دے دی تھی، سیر و سیاحت کرتے ہوئے شہید ہوئے۔ مدفن ٹھٹھہ کے محلہ ستھیہ میں ہے۔ (تحفۃ الطاہرین ص ۱۱۹ و تحفۃ الکرام ج۳ ص ۲۴۶) (تذکرہ اولیاءِ سندھ )۔۔۔
مزیدحضرت گنج شہیداں علیہ الرحمۃ ہر ملک کی طرح سندھ میں بھی بعض مقامات پر اجتماعی قبور پائی جاتی ہیں، ان قبور میں بعض اہل اللہ کی بھی ہیں۔ ایسی اجتماع قبور گنج شہیداں کے نام سے مشہور ہیں۔ ہم چند ایک کاذکر کرتے ہیں۔ (تذکرہ اولیاءِ سندھ )۔۔۔
مزیدحضرت گنج شہیداں متصل جامع فرخ علیہ الرحمۃ جب مرزا شاہ حس ارغون فوت ہوگئے، تو ملک سندھ دو حصوں میں بٹ گیا، سمند سے ہالہ کندی تک مرزا عیسیٰ ترخان کو اور سیوستان سے بکھر تک سلطان محمود تغلق کو ملا، نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں میں لڑائی ٹھن گئی، مرزا عیسیٰ نے انگریزوں سے مدد کی درخواست کی، چناں چہ ۹۶۲ھ میں انگریز بندکودہ سے بند لاہوری آئے اور جمعہ کی نماز کے وقت جب شہر مصروف نماز تھا، شہر پر حملہ کردیا، خوب گولے برسائے اور قتل کا بازار گرم کردیا، یہاں تک کہ جامع مسجد فرخ اوغون میں گھس آئے، اور تقریباً دو ہزار نمازیوں کو جن میں بیشتر اولیاء اللہ تھے شہید کردیا، ان شہدا کی یاد گار مسجد مذکور کے شمال میں ہے ، حاجت مندوں کی حاجتیں یہاں پوری ہوئی ہیں۔ (تحفہ الطاہرین ص ۱۱۶) (تذکرہ اولی۔۔۔
مزیدحضرت لاکھامیاں علیہ الرحمۃ آپ صاحب کمال اور صاحب حال تھے، ہر موسم میں صرف ایک چرمی تہبند ناف سے گھٹنا تک پہنتے تھے، تغلق آباد میں تنہا رہتے تھے، آپ کا مزار فیض اثار میاں شیخ عالی کے مزار کے قریب مکلی پر واقع ہے۔ (تذکرہ اولیاءِ سندھ )۔۔۔
مزید