حضرت لاکھا پیر علیہ الرحمۃ صاحب استغراق، خلوت نشین بزرگ تھے، کہتے ہیں جو بھی آپ کی خدمت میں کوئی حاجت لیکر جاتا راستہ میں اس کو حصول مقصد کی بشارت مل جاتی، اور اس کا دل حصول مدعا پر از خود گواہی دینے لگتا، آپ کا مزار محلہ ستھیہ ٹھٹھہ میں واقع ہے۔ (تحفۃ الطاہرین ص ۱۲۳) (تذکرہ اولیاءِ سندھ )۔۔۔
مزیدحضرت لال میاں علیہ الرحمۃ شیخ محمد سجادہ نشین حضرت پیر شیخ عالی قدس سرہ کے صحبت یافتہ تھے، آپ کا مزار مکلی پر ہے۔ (تحفۃ الطاہرین ص ۹۶) (تذکرہ اولیاءِ سندھ )۔۔۔
مزیدحضرت لال پیر علیہ الرحمۃ یہ بڑے صاحب کرامات بزرگ تھے، مستجاب الدعوات تھے، ان کا مزار پیر چھتہ کے مزار کے پاس ٹھٹھہ قلعہ ارک پر واقع ہے۔ (تحفۃ الطاہرین ص ۱۶۲) (تذکرہ اولیاءِ سندھ )۔۔۔
مزیدحضرت لال چھتہ سید علیہ الرحمۃ آپ عارف محقق، مرتاض تھے، دوپہر کے وقت آگ جلا کر اس کی بھوبھل پر مصروف عبادت رہتے تھے، تحفۃ الکرام میں ہے کہ آپ کے والد کا نام وجہیہ الدین حسینی تھا، آپ کا مزار قند سر محلہ کے مغرب میں ٹھٹھہ میں ہے ۔ اسی نام کے ایک اور بزرگ کا مزار ٹھٹھہ کےمحلہ ستھیہ میں ہے۔ (تحفۃ الکرام ص ۱۲۷) (تذکرہ اولیاءِ سندھ )۔۔۔
مزیدحضرت لال میاں علیہ الرحمۃ آپ کےبارے میں مشہور ہے کہ آپ لال شہباز قلندر کے بھائی یا ابن عم ہیں، آپ نہایت بلند پایہ ولی ہوئے ہیں، آپ کا مزار پر انوار شیخ جیہ کی درگاہ کے مشرقی سمت میں واقع ہے، تاریخ وفات معلوم نہ ہوسکی۔ (تحفۃ الکرام ص ۳۸) (تذکرہ اولیاءِ سندھ )۔۔۔
مزیدحضرت لدہ پیر علیہ الرحمۃ پیر لدہ ایک حسین و جمیل بزرگ تھے، جہاں مزار ہے وہیں روئی بیچتے تھے، اتفاقاً شاہ مراد گودریہ علیہ الرحمہ کا اس بازار سے گذر ہوا، آپ پر نگاہ پڑی، کھڑے ہوکر غور سے ان کو دیکھا، آپ جوان العمر تھے، جگہ سے باادب اٹھے اور حضرت کے قدموں پر گر پڑے، اور درویش کی تعظیم و تکریم کی پھر حضرت کا معمول ہوگیا کہ اس دکان پر آتے جاتے یہاں تک کہ لدہ منزل سلوک پر گامزان ہوگئے اب لدہ دکان پر برقعہ اوڑھ کر بیٹھتے تھے، انہوں نے اپنی دکان میں ڈھیروں ٹھیکریاں جمع کر رکھی تھیں جو بیمار آتا اس کو ایک ٹھیکری دے دیتے تھے، بحکم خدا ہر مرض سے شفاء ہوجاتی تھی، آپ کا دلچسپ واقعہ ہے کہ مچھیروں کو عورتیں جو آپ کے پڑوس میں رہتی تھیں، فجر کے وقت شور مچاتی تھیں۔۔۔
مزیدحضرت لطیف شاہ سید آپ صاحب کرام بزرگ تھے، سات مرتبہ حج بیت اللہ کی سعادت سے مشرف ہوئے۔ مزار ٹھٹھہ میں ہے۔ (تحفۃ الطاہرین ۱۱۳) (تذکرہ اولیاءِ سندھ )۔۔۔
مزیدحضرت للہ درویش علیہ الرحمۃ صاحب کرات بزرگ تھے، ان کا مشہور قول ہے کہ اگر لوگوں کو مناجات نیم شبی کی لذت واجابت کا علم ہوجائے تو کوئی بھی کسی درویش کے پاس نہ جائے اور ہر شخص بلاوسیلہ اپنی مراد پائے، مکلی میں آپ کا مزار ہے۔ (تحفۃ الطاہرین ص ۴۷) (تذکرہ اولیاءِ سندھ )۔۔۔
مزیدحضرت لونگ پیر علیہ الرحمۃ آپ صاحب کرامت بزرگ تھے، منقول ہے کہ ایک شخص دیہات سے ٹھٹھہ آیا جب دریا کے کنارہ پہنچا تو لکڑیاں جمع کر کے پشتہ تیار کیا تاکہ دریا عبور کر سکے، اس پر بیٹھ کر دریا میں چل پڑے جب راستہ نصف ہوا تو وہ ٹوٹ گیا، وہ ڈوبنے لگا، آپ دریا کے دوسرے کنارے پر تھے، اس کو دیکھ کر دریا کے پانی پر اس طرح چل پڑا جس طرح کوئی شخص خشکی پر چلتا ہے اور اس کا ہاتھ پکڑ کر لے گئے آپ کا مزار دریائے سیہون (جس کو اب مہران کہتے ہیں) کے کنارے واقع ہے یہ جگہ اب آپ ہی کے نام سے مشہور ہے۔ (تذکرہ اولیاءِ سندھ )۔۔۔
مزیدحضرت مبارک حقانی گیلانی اوچی علیہ الرحمۃ ف۔ ۹۵۶ھ میران سید مبارک حقانی گیلانی اوچی قدس سرہ سید محمد غوث اوچی کے بیٹے تھے، خرقہ خلافت اپنے والد ماجد سے حاصل کیا تھا، سکر کی حالت کا غلبہ عام طور پر رہتا تھا ،جلال کا یہ عالم کہ بقول صاحب تذکرہ نو شاہی کسی شخص کی مجال نہ تھی کہ حالت جلالی میں معروف چشتی جو شیخ فرید الدین گنج شکر کی اولاد سے تھے آپ کی خدمت میں لکھی کے جنگل میں حاضر ہوئے اور کسب فیض کیا شیخ نے آپ کو خرقہ خلافت سونپا اور ساتھ بشارت دی کہ تم سے ایک نیا خانوادہ جود پذیر ہوگا، چناں چہ ایسا ہی ہوا اور آپ سے نوشاہی خاندان کا سلسلہ شروع ہوا، آپ وفات لاہور میں ہوئی پھر آپ کو لاہور سے اوچ شریف لاکر والد ماجد کے روضہ میں دفن کیا گیا سال وفات ۹۵۶ھ ۔ (خزینۃالاصفیاء ص ۱۲۳) (تذکر۔۔۔
مزید