/ Thursday, 13 March,2025


شیخ الاسلام حضرت علامہ سید محمد مدنی اشرفی جیلانی المعروف مدنی میاں   (192)





وطن کی صبح و شام کی لطافتوں کو چوم لو

نوائے نرم گرم جناب اعجاز صدیقی مدیر’’شاعر‘‘ کی ایک نظم پر تضمین وطن کی صبح و شام کی لطافتوں کو چوم لو گلوں کی مسکراہٹوں نزاکتوں کو چوم لو یہی تو اقتضاء تمہاری زندہ خاطری کا ہے صباحتوں کو چوم لو ملاحتوں کو چوم لو گلوئے کہکشاں میں بڑھ کے اپنے ہاتھ ڈالدو عروج کا غرور اس کے سر سے تم نکال دو لگاؤ جست ایسی برق و باد بھی ہوں خیرہ تر زمیں پہ رہ کے آسماں کی رفعتوں کو چوم لو جہان رستخیز میں ہے صرف قدر دل وہی شہنشہی کے ساتھ ہو غلامئ ایاز بھی عداوتوں کے خوگرو خدا کے واسطے سنو! یہ نفرتیں گناہ ہیں، محبتوں کو چوم لو تمہاری منزلیں ہیں دورکہنہ مہر و ماہ سے فلک بھی پست ہے تمہاری رفعت کلاہ سے یہ نغمے پھوٹ نکلےہیں جہان نو کے ساز سے قدامتوں کو بھول جاؤ جدتوں کو چوم لو کرو حوادثات کا مقابلہ خوشی خوشی تقاضہ زندگی کا ہے یہ اور یہی ہے زندگی الجھنا سیکھو خار سے اگر ہے گل کی آرزو ہے راحتوں۔۔۔

مزید

غم کے مارو لو مسرت کا پیام آہی گیا

صبح آزادی   غم کے مارو لو مسرت کا پیام آہی گیا آفتاب حریت بالام بام آہی گیا ہو مبارک یہ سرور و انبساط زندگی میکشو! ہونٹوں تک آزادی کا جام آہی گیا برق نے تو لاکھ چاہا تھا کہ رستہ روک دیں آسمانِ حریت پر میرا گام آہی گیا اب شبستانِ وطن کی ظلمتیں کا فور ہیں آسماں پر نیر گردوں خرام آہی گیا آج اپنے ہاتھ میں اپنے وطن کی ہے زمام نالۂ مظلوم آخر کار کام آہی گیا ذلتِ محکومیت سے ہم کو چھٹکارا ملا اپنے ہاتھ اپنے گلستاں کا نظام آہی گیا لو نسیم صبح گاہی لائی پیغام نشید مرحبا وقت وداع وقت شام آہی گیا منھ کی کھانا پڑگیا افرنگیوں کی چال کو خود شکاری آج اخؔتر زیر دام آہی گیا ۲۶ جنوری ۱۹۵۷؁ء (مبارکپور اعظم گڑھ)۔۔۔

مزید

تجھ کو منظور رضائے نگہ جاں نہ سہی

اختر کیراپی کے نام! تجھ کو منظور رضائے نگہ جاں نہ سہی تیرے یہ اشک رہین غم جاناں نہ سہی زخم احساس کے ناسور بھی عریاں نہ سہی چاک اے دوست مگر اپنا گریباں بھی نہ کر زیست کو اپنی شکایات کا عنواں بھی نہ کر تجھ کو یہ فکر ہے منزل سے بہت دور ہیں ہم ہمکو یہ غم ہے کہ منزل میں بھی مجبور ہیں ہم نکہت و نور کی دنیا میں بھی بے نور ہیں ہم اب کہاں لطف تگا پوئے دمادم اے دوست زندہ رہ کر کے بھی ہے زیست کا ماتم اے دوست شمع افکار جو خاموش ہوئی ہونے دو جذب و احساس کافقدان ہوا غم نہ کرو باغ تخیل کے تنکوں سے کہو خوب جلو مٹ نہیں سکتی مگر پھر بھی تمہاری ہستی آگ کی آنچ ہیولےٰ پہ نہیں آسکتی میرے ساتھی تجھے معلوم بھی ہے راز بہار؟ صرف رولینے سے آتا نہیں غنچوں میں نکھار روشنی ملتی ہے جب دل کو کرونذر شرار بادِ صر صر کو چلو رشک بہاراں کردیں نار نمرود کو فردوس بداماں کردیں غم کو سینے سے لگا کر ہے سہولت کی تلاش ساعت ہجر سے م۔۔۔

مزید

ناپاک دست و پاکی ناپاک حرکتوں سے

ناپاک دست و پاکی ناپاک حرکتوں سے مٹی میں مل گیا ہے ’’عزت‘‘ کا جل کے خرمن دوشیزۂ شرافت آوارہ ہوگئی ہے بھٹکا ہوا ہے آنچل بہکا ہوا ہے جوبن ۔۔۔

مزید

سمجھ ہی میں نہیں آتی چمن والوں کی دانائی

قطعہ سمجھ ہی میں نہیں آتی چمن والوں کی دانائی جہاں پر چاہئے ماتم وہاں بجتی ہے شہنائی چمن پر یہ اثر تیرا پڑا رنگ خود آرائی نہ کوئی دلکشی باقی نہ کوئی زیب و رعنائی ۔۔۔

مزید

اے مسلماں صیددام خواب غفلت ہوشیار

ہندوستان کے مسلمانوں سے خطاب   اے مسلماں صیددام خواب غفلت ہوشیار وقت کہتا ہے کہ لے ہاتھوں میں اپنے ذوالفقار اٹھ کہ تجھ کو ہے بدلنا گردشِ لیل و نہار اے محمدﷺ کے سپاہی دین حق کے جاں نثار تھا کبھی تو باعث نقش و نگار گلستاں آج کیوں ہے تنگ گلشن اور عار گلستاں تیری غفلت نے کیا ہے باطلوں کا سر بلند تیری گردن میں حمائل ہے غلامی کی کمند تیری ہستی بن گئی ہے تختۂ مشق گزند پھر رہا ہے آج تو بن کر سراپا درد مند لرزہ براندام جو رہتے تھے تیرے نام سے تھر تھراتا آج تو ہے ان کے چاپ گام سے ہاں تری یہ خانہ جنگی طاقت باطل ہے آج اللہ اللہ بھائی کا خود بھائی ہی قاتل ہے آج سنگدل اپنوں کے حق میں کیوں مثال سل ہے آج دشمنوں کے درمیاں لیکن بہت بزدل ہے آج الاماں صد الاماں تم اور خون اتحاد پیکر رحم و کرم اور مائل بغض و عناد کیا ہوئی تیری اخوت اور شجاعت کیا ہوئی کیا ہوئی تیری صداقت اور سخاوت کیا ہوئی اپنے غیروں سے ۔۔۔

مزید

ساحل کا تصور آتے ہی دوڑا ہوا ساحل آجائے

تضمین ساحل کا تصور آتے ہی دوڑا ہوا ساحل آجائے لب آشنا حرکت سے بھی نہ ہوں اور زیست کا حاصل آجائے خاموش زباں بھی خشک رہے اور ساقی محفل آجائے اتنی تو کشش دل میں میرے اے جذبہ کامل آجائے جب خواہش منزل پیدا ہو خود سامنے منزل آجائے تسلیم کہ شیوہ حسن کا ہے خوشیوں میں بھی رنگ غم بھرنا مانا کی حسینوں کی عادت ہے زخم پہ بھی نشتر دھرنا دربار حسیناں میں پھر بھی کہتا ہے یہ آنکھوں کا جھرنا اے شمع قسم پروانوں کی اتا تو مری خاطر کرنا اس وقت مجھے چونکا دینا جب رنگ پہ محفل آجائے مجھ سوختہ جاں پہ چل ہی گیا افکار زمانہ کا افسوں میں رنج و محن کا مسکن ہوں میں درد و الم کا سنگم ہوں سن ’گیسوئے عنبربار‘ سن اے ’رخسار حسین‘ چشم میگوں‘ میں جذبۂ دل کے بارے میں اک مشورہ تم سے لیتا ہوں اس وقت مجھے لازم ہے جب تم پہ مرا دل آجائے اے اخؔتر خستہ قلب و جگر شاید ہے اسی کا نام الفت گفتار کی جرأت کر۔۔۔

مزید

نظر ہے میری سوادِ خطِ محبت پر

ایک خط کے جواب میں تمہید نظر ہے میری سوادِ خطِ محبت پر سطور مثل رگ جاں نقوش خلد نظر چمک جو معنئ لفظ سیاہ کی دیکھے نگاہ مہر ضیاپاش بھی ہوخیرہ تر بلاتمثیل اتر کے دیکھ ذرا آشیانۂ دل کو ہے تجھ کو آرزوئے جلوۂ بلال اگر نمایاں صفحۂ قرطاس پہ ہیں ہوں نقطے کہ جیسے چرخ پہ بکھرے ہوئے ہوں نجم و قمر دکھایا جلوۂ بندہ نوازیاں تو نے مری نگاہ کو فطرت کی راز داں کہہ کر کہیں پہ عجز کے دریا میں شانِ طغیانی کہیں پہ سجر دعا میں ہیں بے بہا گوہر خلاصہ یہ ہے کہ ہے ایک گلشن الفت سرور خاطر غمگین و مخزن راحت ۔۔۔

مزید

میرے نوشاہ کی دل ربائی

سِہرا بانداز غزل میرے نوشاہ کی دل ربائی چاندنی دیکھ کر مسکرائی بزم کی بزم ہے عطر آگیں ایسی سہرے میں خوشبو سمائی بس لچکنا تھا سہرے کا رخ پر دو دلوں کی کلی مسکرائی آج خوش خوش نسیمِ سحر بھی مژدۂ جانفزا لے کے آئی وجد میں سن کے ہر اک کلی ہے اہل محفل کی نغمہ سرائی میرے نوشہ کی دلکش ادائیں جس کو دیکھو وہی ہے فدائی دولہا دولہن کو ہوئے مبارک ان کی ساکت تمنا برآئی اس طرف تاب دست محبت اور اس سمت دست حنائی کہہ اٹھے اہل محفل بھی اخؔتر خوب تو نے غزل گنگنائی ۔۔۔

مزید

اے خوشا باران ابر رحمت رب جلیل

سہرا اے خوشا باران ابر رحمت رب جلیل بہہ رہی ہے ہرطرف کیف و طرب کی سلسبیل دیدۂ مشتاق میں کحل مسرت کی لکیر ہے کسی زہرہ جبیں کی رونمائی کی دلیل بے ربانئ لب غنچہ پہ قربان جائیے راز الفت آشکارا کردئیے بے قال و قیل اس طرف ہے دجلۂ عشق و محبت موجزن اور اس جانب حیا و شرم کی پاکیزہ نیل   دلربا و دلنواز و دل نشیں سہرے میں ہے باغ احمد کا گل ناز آفریں سہرے میں ہے ہر طرف چھٹکی نظر آتی ہے کیسی چاندنی ہو نہ ہو ماہِ درخشندہ جبیں سہرے میں ہے ہے یہ تیری ہی عنایت اے نصیر کائنات حافظ سنت بصد حسن یقیں سہرے میں ہے غسل لبہائے حسیں صہبائے چشم نازنین قاؔسم فیض شراب و انگبیں سہرے میں ہے     تجھ میں اے دوشیزۂ الفت بڑا اعجاز ہے ساز گل سوز عنادل آج ہم آواز ہے ایک ہی در اصل مرکز ہے نیاز و ناز کا یوں تو کہنے کیلئے ایک سوز ہے ایک ساز ہے روکش حسن قمر رشک جمال کہکشاں یہ مرا نوشاہ جیتا جاگتا اعجاز ہے۔۔۔

مزید

بزم گیتی کا ہر ایک ذرہ پُر انوار ہوا

سہرا بزم گیتی کا ہر ایک ذرہ پُر انوار ہوا حسن خود ناصیۂ عشق پہ ضوبار ہوا اللہ اللہ رے سہرے کا جمال رنگیں نکہت خلد بیاں نزہتِ افکار ہوا از زمیں تابہ فلک ایک تعطر کاسماں روکشِ باد بہاری ہے فضا آج کے دن کس نے زلفوں کو بکھیرا ہے بصد ناز وادا شوخ و چنچل ہوئی جاتی ہے ہوا آج کے دن برق چشمان حسیں مہر عذار رنگیں اپنے پردے میں چھپائے ہے قیامت سہرا ساغر گل میں ہے صہبائے شریعت رقصاں شرح ماطاب لکم حامل سنت سہرا ہے یہ گلزار وصؔی شہ ابرار کا پھول جس نے گیتی کو مہکنے کا سبق سکھلایا فکر و جداں کی قنادیل فروزاں کرکے تیرہ سامانئ ماحول کی پلٹی کایا کوثری جام لئے ساغر تسنیم لئے تیری آنکھوں نے سکھایا ہے محبت کیا ہے بربط و عود و چراغ و دف و افسانہ و چنگ آج معلوم ہوئی راہ حقیقت کیا ہے نغمہ افشاں ہے لب نسترن دردو سمن خامشی میں بھی بڑی شورش گویائی ہے اس طرف سوز کے دریا میں تلاطم برپا اس طرف ساز عروسانہ کی برنائی ہ۔۔۔

مزید

شہر نبیﷺ تیری گلیوں کا نقشہ ہی کچھ ایسا ھے

نعت شریف شہر نبیﷺ تیری گلیوں کا نقشہ ہی کچھ ایسا ھے خلد بھی ھے مشتاقِ زیارت جلوہ ہی کچھ ایسا ھے دل کو سکوں دے آنکھ کو ٹھنڈک روضہ ہی کچھ ایسا ھے فرشِ زمین پر عرش بریں ہو لگتا ہی کچھ ایسا ھے ان کے در پر ایسا جُھکا دل اٹھنے کا اب ہوش نہیں اہل شریعت ہیں سکتے میں سجدہ ہی کچھ ایسا ھے لوح و قلم یا عرش بریں ہو سب ہیں اس کے سایے میں میرے بے سایہ آقا کا سایہ ہی کچھ ایسا ھے سبطِ نبی﷜وﷺ ھے پُشت نبیﷺ پر اور سجدے کی حالت ھے آقاﷺ نے تسبیح بڑھادی بیٹا ہی کچھ ایساھے عرش معلیٰ سر پر اٹھائے طائر سدرہ آنکھ لگائے پتھر بھی قسمت چمکائے تلوا ہی کچھ ایسا ھے رب کے سوا دیکھا نہ کسی نے فرشی ہوں یا عرشی ہوں ان کی حقیقت کے چہرے پر پردہ ہی کچھ ایسا ھے تاج کو اپنے کاسہ بنا کر حاضر ہیں شاہانِ جہاں ان کی عطا ہی کچھ ایسی ھے صدقہ ہی کچھ ایسا ھے خم ہیں یہاں جمشید و سکندر اس میں کیا حیرانی ھے؟ ان کے غلاموں کا اے اخؔتر رتبہ ہی۔۔۔

مزید