جو حق ثنائے خدائے جہاں ہے زبان و دہاں میں وہ طاقت کہاں ہے لکھوں وصف کیا اپنے منعم خدا کا کیا اُس نے انعام و احسان کیا کیا عدم سے کیا اس نے موجود ہم کو دیا خلعتِ زندگانی عدم کو عطا کر کے علم و خرد، فہم و بینش بشر کو کیا زیورِ آفرینش کہاں تک کرے کوئی نعمت شماری کہاں تک کرے کوئی اوصافِ باری کرے کوئی تشریح و تفصیل کیا کیا کہ عاجز یہاں عقل تشریح پیرا بھلا کس کو مقدور حمدِ خدا ہے تحیر تحیر تحیر کی جا ہے ۔۔۔
مزیدجو طالب ہے کافؔی خدا کی رضا کا تو اب وصف لکھیے حبیبِ خدا کا جنابِ محمد حبیبِ خدا ہیں تمامی رسولوں کے وہ پیشوا ہیں جو کچھ باغِ امکاں میں پیشِ نظر ہے حبیبِ خدا کے سبب جلوہ گر ہے وہ صلِّ علٰی نور ہے مصطفیٰ کا کیا سب سے پہلے جسے آشکارا نہ افلاک و انجم نہ شمس و قمر تھے کہ وہ تختِ لَوْلَاک پر جلوہ گر تھے نہ تھا جلوۂ بزمِ ایجاد پیدا کہ تھا نورِ پاکِ نبی جلوہ فرما وراء الورا وصفِ خیرُالورا ہے خدا تو نہیں پر حبیبِ خدا ہے مجھے بخش دے اے خداوندِ عالم بحقِ جنابِ نبیِّ مکرّم ۔۔۔
مزیدنبی ﷺ مکرم نبی امیں ہیں۔ شفع الورا خاتم المرسلین ہیں وہ ایسے نبیﷺ ہیں کہ جن کی سبب سے زمین و زماں اور مکان ومکیں ہیں وہ ہیں بحر زخار احسان رحمت وہ سب خلق کی بہتریں اور گزین میں اس عالم میں غم خوار ہم عاصیوں کا بروز جزا شافع المذنبین ہیں سلامٌ صلوۃٌ درود وتحیت انہیں کے لئے ہدیہ دائمیں ہین مدارج مراتب جو اِن کو ملے ہیں کسی دوسرے کو نہیں ہیں نہیں ہیں ملا ہم کو کیا خوب کاؔفی وسیلہ ہمارے نبی ﷺ رحمت العالمین ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(دیوانِ کافؔی) ۔۔۔
مزیدلکھوں حال کچھ عبدِ حق دہلوی کا محدّث، محقق، محبِّ نبی کا کہ تھا عشق اُس کو حبیبِ خدا سے اور اُن کے سبب آلِ خیر الورا سے وہ کامل تھا حُبِّ ولاۓ نبی میں وہ تھا غرق بحرِ وفاۓ نبی میں عجب محوِ حُبِّ حبیبِ خدا تھا فَنَا فِی الرَّسُوْل اُس کو کہنا بجا تھا جو ہے مقتضاۓ کمالِ محبّت کہ ہے جس کی اَسناد میں یہ روایت ۔۔۔
مزیدکہ جس چیز سے کوئی اُلفت رکھے گا بہت ذکر اُس کا وہ کرتا رہے گا رہینِ محبّت وہ خیرُالورا کا عرب سے کتابیں حدیثوں کی لایا لکھے ترجمے کیا ہی بے مثل و ثانی بَہ تشریح و تفصیل و صانی بیانی کیا ان کو مشہور ہندوستاں میں فقط ہند میں کیا تمامی جہاں میں بکثرت تصانیف ہیں اُس ولی کی محبِّ نبیﷺ عبدِ حق دہلوی کی ازاں جملہ تصنیف کیا ہے رسالہ لکھا ہے کتابوں سے کر کے خلاصہ مسمی بہ ترغیب اہل سعادت بَہ تکثیرِ وِرد و دُرود و تحیت دُرودوں کی ہے جو کہ ثابت فضیلت سعیدوں کو اس کی دلاتا ہے رغبت کہ سُن کر فضائل درودِ نبی کے طلب گار ہوں الفتِ احمدی کے رسالہ وہ کافی کے ہاتھ آ گیا ہے درودوں کے اَوصاف دکھلا رہا ہُوا اُس کے دیکھے سے یہ فیض حاصل کہ اس بات پر آ گئی رغبتِ دل کہ میں لکھ رہا ہوں باَبیاتِ اردو دُرود اور صلوات کے فائدوں کو یہ منظوم گو موجز و مختصر ہے ولیکن یہ جز سوئے کُل ر۔۔۔
مزیدمناجات کرتا ہوں میں اے عزیزو! ذرا لفظِ ’’آمین‘‘ تم بھی کہوں تو الٰہی الٰہی الٰہی الٰہی کرم کر طفیلِ رسالت پناہی ہمیں محوِ حُبِّ رسولِ خُدا کر ہمیں دین و ایمانِ کامل عطا کر وہ ایمانِ کامل کہ حبِّ نبی ہے مِرے دل کو اُس کے لیے بے کلی ہے مجھے حبِّ احمد کا شایاں عطا کر الہٰی! مجھے دین و ایماں عطا کر رہوں نعرہ زن، اُلفتِ مصطفیٰ میں شب و روز حبِّ حبیبِ خُدا میں مِرا عزم جب سُوۓ دارِ بقا ہو مِرے لب پہ نامِ حبیبِ خُدا ہو میں اپنے نبی کی محبّت میں اُٹھوں شفیعِ قیامت کی اُلفت میں اُٹھوں فوائد، فضائل درودِ نبی کے حبیبِ خُدا ہاشمی اَبطحی کے سنو او محبّانِ درگاہِ حضرت پڑھو اُن کے اوپر درودِ تحیّت سلام و صلاۃِ نبی کی فضیلت ہوئی ہے کتابوں میں وارد بَہ کثرت وہ اس طرح کی کثرتِ بے عدد ہے کہ امکانِ طاقت سے باہر وہ حد ہے مگر قدرِ طاقت جو علمائے دیں ۔۔۔
مزیدلکھا ہے کوئی تو دُرود اس طرح کا کہ ہے ا صلِ صلوات کا وہ نتیجہ ہوا ہے دُرود اس طرح کوئی مروی کہ تقریب ہے واں شمار و عدد کے کسی کو ہے کیفیتِ خاص حاصل بَہ وقتِ معیّن ہوا کوئی داخل کوئی لازمِ حال میں پُر اثر ہے کہ تاثیر اُس کی کسی حال پر ہے غرض ایک یہ کیا بڑا فائدہ ہے کہ حکمِ الٰہی کا لانا بجا ہے کیا حکم اللہ نے مومنوں کو کہ تم سب سلام و صلاۃ اُن پہ بھیجو فرشتے بھی مامور اس امر کے ہیں کہ حضرت نبی پر وہ صلوات بھیجیں روایت میں یہ اور مذکور آیا درود ایک جو کوئی بندہ پڑھے گا جنابِ الٰہی سے دس بار اُس پر نزولِ دُرود ہو عنایات گستر مدارج بھی دس اس بشر کے بڑھیں گے اور اُس کے لیے نیکیاں دس لکھیں گے مٹا دیں گے دس جرم و عصیاں کا نقشا درود ایک کا اتنا درجہ ملے گا کیا یہ بھی ارشاد خیرالورا نے حبیبِ خدا خاتمِ انبیا نے ۔۔۔
مزیدسلامٌ علیک اے حبیبِ الٰہی سلامٌ علیک اے رسالت نہ پاہی سلامٌ علیک اے مہِ برجِ رحمت سلامٌ علیک اے درِ دُرجِ رحمت سلامٌ علیک اے سنراوارِ تحسیں مناقب تمہارا ہے طٰہٰ و یاسیں سلامٌ علیک اے شہِ دین و دنیا اگر تم نہ ہوتے، کوئی بھی نہ ہوتا سلامٌ علیک اے خدا کے پیارے قیامت میں ہم عاصیوں کے سہارے سلامٌ علیک اے خبردارِ اُمّت یہاں اور وہاں آپ غم خوارِ اُمّت درود آپ پر اور سلام ِ خُدا ہو قیامت تلک بے حد و انتہا ہو سنا واہ کیسا یہ جاں بخش مژدہ کہ مژدہ نہیں کوئی اُس سے زیادہ کہ جو اُمتی سرورِ انبیا کا درود اور تسلیم ہے عرض کرتا تو اُس محفلِ خاصِ نور و ضیا میں حضورِ جنابِ رسولِ خدا میں بیاں ہونا ہے اُس کے نام و نشاں کا کیا جاتا ہے ذکر صلوات خواں کا سنو اور بھی، اے محبو! بشارت کہ تھی جاوداں آپ کی خاص عادت کہ جو کوئی کرتا سلام اُن کو آ کے جوابِ سلام اُس کو فی الفور دیت۔۔۔
مزیدکہ ذکرِ حبیب اِس طرح کا بجا ہے مریضِ طلب کو طبیبِ دوا ہے تعجب ہے کہ ایماں کی مدعی سے کہ غافل رہے وہ درود نبی سے درودِ مبارک عجب نورِ جاں ہے کلیدِ درِ برکتِ بے کراں ہے بدرگاہِ شاہنشہِ دین و دنیا کسی نے کیا آ کے معروض ایسا کہ میں وقت اپنے تمامی مقرر کروں بہرِ صلواتِ خوانی مقرر کیا اس کو ارشاد خیر الوراﷺ نے حبیبِ خدا خاتمِ انبیاﷺ نے کہ گر اس عمل کا تو عامل ہوا ہے سبھی حلِ مشکل کو اکتفا ہے کہ یعنی درودِ مبارک کی کثرت مہمات سے بخشتی ہے فراغت یہاں اور قولِ جنابِ علی ہے کلامِ علی ابنِ عمِّ نبیﷺ ہے سنو حاصلِ قولِ شیرِ خدا کا علیِ ولی نائبِ مصطفیٰ کا کہ جو کیفیت ہے بذکرِ الٰہی نہ اس لطف کی دوسری چیز پائی جو بالفرض اس ذکر سے مطلبِ دل نہ ہوتا ہمیں جو کہ ہوتا ہے حاصل تو اس کے عوض ہم تمامی عبادت سمجھتے درودِ مبارک کی کثرت غرض یہ کہ اس کا عوض اور بدلا جو ہوتا در۔۔۔
مزیدسراپا وہ صَلِّ عَلٰی آپ کا تھا کہ ہر عضو حسنِ تجلی نما تھا حبیبِ خدا کا جمالِ مکرم سنراوارِ تحسین و حمد و ثنا تھا جبینِ مصفّا میں حُسنِ مصفّا ہلال اور ماہِ تمام ایک جا ہیں بہارِ لطافت میں بے مثل و ثانی گُلِ بے خزاں عارضِ مصطفیٰ تھا مدوّر جو کہتی ہیں چہرے عالَم وہ تدویر سے بھی ورآء الورا تھا وہ صَلِّ عَلٰی گندمی رنگ اُن کا کہ غازہ رخِ عالمِ نور کا تھا چمکتا تھا کیا نورِ حُسنِ صباحت فروغ ملاحت دمکتا ہوا تھا مزیّن بَہ پیرایۂ اعتدالی خوش اندام اندامِ خیرُ الورا تھا وہ چشمِ مبارک کی روشن سیاہی کہ سر چشمۂ نور جس کا گدا تھا وہ دندان و لب غیرتِ وردِ ہر جاں وہ حُسنِ تبسم کا عالَم نیا تھا وہ بحر تبسم میں موجِ تبسم کہ دریوزہ گر جس کا آبِ تقا تھا وہ حُسنِ ادا کس زباں سے ادا ہو تبسم میں اُن کے جو حُسنِ ادا تھا کروں ۔۔۔
مزیدخدائے جہاں بادشاہ ِ جہان ہے پناہ زمین و پناہ زمان ہے ملائک کو اکب کا جن و بشر کا وہ خلاق معبود روزی رساں ہے دیئے اپنے محبوب کو وہ مراتب کہ تعریف سے ان کی قاصر زبان ہے کہو مومنوں سے کہ یہ حکم سن لو نبی ﷺ پر خدا ان کا صلواۃ خوان ہے ملائک بھی ہیں ان کو نشلیم کرتے وہ ایسا نبیﷺ میرا باغرو شان ہے سلام اور صلواۃ تم بھی تو بھیجو۔ کہ حکم خدا تم کو اے مومناں ہے بس اے مومنو کاؔفی خستہ جاں کا یہی حرز جاں اور درد زباں ہے سلام و صلاۃ و درود و تحیتنثارِ جنابِ شفیعِ قیامت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(دیوانِ کافؔی)۔۔۔
مزیدخیابانِ فردوس جب لکھ چکا میں ہوئی سالِ تاریخ کی فکر مجھ کو عجب مصرعۂ سالِ تاریخ پایا ’’بہارِ خیابانِ فردوس دیکھو‘‘ (1267ھ) ۔۔۔
مزید