آپ مخدوم جہانیاں سیّد جلال بخاری کے پوتے تھے۔ اپنے آبائی وطن سے منتقل ہوکر گجرات میں آکر مقیم ہوئے اور پھر گجرات ہی کو اپنا جدید وطن بنالیا تھا، آپ کانام سیّد برہان الدین تھا اور قطب عالم کے لقب سے مشہور تھے۔ احمدآباد سے چھ میل کے فاصلہ پر ایک قصبہ بتوہ ہے وہاں آپ کا مزار ہے آپ نے ۸۵۷ھ میں انتقال فرمایا جس کے اعداد ’’مطلع یوم الترویہ‘‘ ۸۵۷ھ سے نکلتے ہیں۔ آپ کے مزار پر ایک پتھر پڑا ہے جس کے اندر پتھر، لوہے، لکڑی تینوں چیزوں کے اوصاف پائے جاتےہیں، کسی شخص کو صحیح طور سے یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ کس چیز کا ہے ، اگر آپ اسے ابتداً دیکھیں تو آپ کو پتھر معلوم ہوگا۔ پھر ذرا غور سے دیکھیں تو لوہا اور مزید غور کرنے پر لکڑی معلوم ہوگا۔ غرض کہ لوہا۔ لکڑی، پتھر تینوں کے اوصاف اس کے اندر موجود ہیں اور اس کے کسی حصہ کو جدا اور علیحدہ بھی نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ایک عجیب چیز ہے ج۔۔۔
مزید
حضرت سلطان المشائخ نےیہ بھی فرمایا کہ ہمارے احباب میں سے ایک دست تھا جس کا نام محمد تھا اور حضرت گنجشکر کے بعض اسرار میں محرم راز تھا۔ ایک دفعہ جمعہ کے دن وہ جامع مسجد حمزۃ میں خواجہ گنجشکر قدس سرہٗ کے پیچھے بیٹھا تھا اور کچھ دیر کے بعد بے ہوش ہوگیا۔ بعد میں حضرت اقدس نے اس سے دریافت کیا کہ معلوم ہے یہ حال پر کیوں طاری ہوا۔ فرمایا اس وقت نماز میں مجھے معراج حاصل تھا تجھے بھی اس میں سے حصہ مل گیا۔ چنانچہ حدیث نبویﷺ ہے کہ ’’الصلوٰۃ معراج المومن‘‘ (نماز مومن کی معراج ہے[1]) یہ بات سن کر شہر جودھن کا قاضی آپکے ساتھ سختی سے پیش آیا اور حضرت گنجشکر کی جو باتیں اسکی سمجھ سے بالا تر تھیں اُنکا اُس نے محاسبہ شروع کردیا لیکن چن روز کے اندر جان و مال سمیت ہلاک ہوگیا۔ اور اُسکے گھر کا کوئی فرد سلامت نہ رہا۔ حضرت سلطان المشائخ کا صبر و تحمل مراۃ ۔۔۔
مزید
آپ شہر لکھنؤ کے بڑے ولی اللہ تھے، آپ کا نام شیخ محمد تھا، شیخ قوام الدین نے بچپن میں آپ کو اپنی زیر تربیت رکھا اور نعمتوں سے نوازا، پھر آپ شیخ سارنگ کے مرید ہوئے اور تصوف کے کاموں میں مشغول ہوگئے۔ شیخ قوام الدین کے ایک لڑکے کا نام محمد تھا جسے لوگ مینا کہا کرتے تھے، لکھنؤ کے محاورہ میں مینا ہنرمند اور باعزت سردار کو کہتے ہیں، شیخ محمد مینا جوانی میں دنیا داروں کی طرح خواہشات نفسانیہ کے زر خرید اور اسی طرح دیگر فضولیات کے رسیا تھے، اس وقت آپ اپنے زمانہ کے بادشاہ کے ملازم تھے، چونکہ اکثر احکام و امرا آپ کے والد بزرگوار شیخ قوام الدین کے مرید اور عقیدتمند تھے اس لیے وہ تمام لوگ شیخ قوام الدین آپ کی عاندات شنیعہ سے سخت بیزار تھے اور بیٹے کی جانب سے باپ کی رضا مندی کے آئینہ میں گرد و غبار جمع ہوچکا تھا، یہ اس زمانے کی بات ہے جبکہ محمد مینا بادشاہ کے حکم سے لکھنؤ سے۔۔۔
مزید
مراۃ الاسرار میں منتخت التاریخ سے رویات نقل کی گئی ہے کہ ۶۸۹ھ میں شہر دہلی اسلام کا پایۂ تخت بن گیا۔ اور سلطان فخر الدین سام نے کچھ عرصہ دہلی میں قیام کر کے حکومت اپنے معتمد غلام قطب الدین ایبک کے سپر دکی اور خود غزنی چلا گیا۔ اور ملک خراساں میں کچھ عرصہ حکومت کرنے کے بعد ایک معرکہ میں شہید ہوا اور قطب الدین ایبک ہندوستان کا مستقبل فرمانردا ہوگیا۔ اس نے گرد ونواح کے علاقوں کو فتح کر کے میر سید حسین شہید کو جو سید حسین خنک سوار کے نام سے موسوم ہیں اجمیر کا حاکم مقرر کیا سید حسین مشہدی سادات مشہد مقدس میں سے تھے۔ اور اپنے آباواجداد یعنی ائمہ اہل بیت کے مرید تھے۔ لیکن اپنے آپ کو چھپانے کی خاطر انہوں نے اہل دنیا کا لباس اختیار کر رکھا تھا اور دنیا داروں کے لباس میں بزرگان دین سے کسب فیض کرتے تھے۔ آپ ظاہری وباطنی کمالات کی بنا پر یگانۂ روزگار تھے۔ آپ اپنے آباؤ اجد۔۔۔
مزید
آپ ابتدائی عمر میں سلطان فیروز شاہ کے بڑے مشہور امیر لوگوں میں سے تھے ہندوستان کا مشہور شہر سارنگ پور آپ ہی نے آباد کیا تھا، لیکن آخر عمر میں اللہ تعالیٰ کی عنایت اور فضل نے یاوری کی جس کی وجہ سے آپ نے راہ سلوک میں قدم رکھا جو واصل باللہ لوگوں کے لیے مخصوص ہے، آپ نے شروع شروع میں شیخ قوام الدین کی خدمت کی اور مُرید بھی ہوگئے اور انہی سے باطن کی اصلاح اور ذکر خفی کی تعلیم کی، اس کے بعد حجاز کا سفر کیا اور حرمین شریفین کی زیارت سے مستفیض ہوئے اور پھر شیخ الوقت جناب شیخ یوسف ایرجی کی ایک دراز مدت تک صحبت میں رہے اور ان سے علوم طریقت حاصل کیے، آپ کے خلوص اور طلب صادق کو دیکھ کر شیخ راجو قتال نے آپ کے طلب کیے بغیر آپ کو خرقہ اور دیگر امانتیں جو آپ کو مشائخ طریقت سے ملی تھیں آپ کے پاس آپ کے گھر بھیج دیں، چنانچہ جب وہ تمام چیزیں آپ کے پاس پہنچیں تو آپ نے واپس فرمادیں اور دریافت کیا کہ یہ چیزیں کس۔۔۔
مزید
آپ شیخ نصیرالدین محمود کے ممتاز خلفاء میں سے تھے، مقام توحید و وحدت میں عالی مرتبہ رکھنے کے علاوہ بڑے بلند پایہ بزرگ اور ولی تھے، آپ نے جو اپنے ظاہری و باطنی حالات تحریر فرمائے ہیں ان کو دیکھ کر انسانی عقل حیران رہے بغیر نہیں رہ سکتی اگر ان تمام احوال کو بغیر کسی تاویل کے اپنے ظاہر ہی پر محمول کرلیا جائے تو یہ اقرار کرنا پڑتا ہے کہ واقعی آپ اپنے وقت کے بہت بڑے کامل بزرگ تھے۔ آپ نے اپنی کتاب ’’بحرالمعانی‘‘ میں توحید کے اکثر دقائق اور مختلف قوموں کےعلوم اور معرفت کے اَسرار کو بیان فرمایا ہے اور آپ کی تحریر کا انداز بڑا ہی پیارا اور مستانہ وارانہ ہے۔ آپ نے اور بھی دو کتابیں جن میں ایک کا نام وقائق معانی اور دوسری کا نام حقائق معانی لکھنے کا وعدہ کیا ہے، اللہ معلوم آپ کی یہ کتابیں لکھی گئی ہیں یا نہیں، علاوہ ازیں آپ کے یہ رسالہ جات بھی ہیں۔ (1) یہ رسالہ روح کے بیا۔۔۔
مزید
آپ حق گو کے لقب سے مشہور تھے، آپ کے والد محترم کا نام شیخ فخرالدین زاہدی تھا، آپ کو حق گو اس لیے کہتے تھے کہ ایک بار سلطان محمد تغلق نے یہ حکم جاری کیا کہ تمام لوگ مجھے عادل کہا کریں، تمام لوگوں نے اس حکم کو تسلیم کرلیا مگر انہوں نے انہیں عادل کہنے سے انکار کردیا اور فرمایا کہ ہم ظالموں کو عادل نہیں کہا کرتے۔ اس جرم میں سلطان نے آپ کو دہلی کے قلعہ سے نیچے پھنکوادیا، آپ کی قبر وہیں ہے۔ آپ شیخ فخرالدین ثانی کے مرید تھے جو بہت بڑے بزرگ تھے، ان کی قبر بھی دہلی شہر میں فیروز آباد کی جانب ہے۔ اخبار الاخیار۔۔۔
مزید
آپ بدایوں کے رہنے والے تھے، ضیا نخشبی نے اپنی کتاب بنام سلک السلوک میں لکھا ہے کہ شیخ ابوبکر موئے تاب ذکر الٰہی میں ایسے فنا تھے کہ ان کا بال بال ذکر الٰہی میں مشغول رہتا تھا اور وہ عالم بالا میں جانے ہی والے تھے کہ میں ان کی عیادت اور مزاج پرسی کے لیے حاضر ہوا دیکھا کہ اس پُر اَسرار شعر کو پڑھ رہے تھے۔ قالب چوں غباراست میان من وتو امید کہ اینک ازمیاں برخیزد ترجمہ: (اے اللہ یہ جسم آپ کے اور میرے درمیان غبار کی طرح حائل ہے امید ہے کہ یہ پردہ بہت جلد اٹھ جائے گا) اخبار الاخیار۔۔۔
مزید
آپ شیخ رکن الدین ابوالفتح کے مریدوں میں سے تھے بہت زیادہ سیر و سیاحت کے شوقین تھے اسی لیے ہمیشہ سیر و سیاحت میں رہتے، لیکن بالاآخر اپنے وطن دہلی تشریف لائے، سماع کے بہت شائق تھے۔ شیخ نصیرالدین محمود چراغ دہلوی کی محفلوں میں ہمیشہ تشریف لاتے اور سماع سے محظوظ ہوتے اور وجد و حال میں رقصاں رہتے پُرانی دہلی میں ہفت پل جسے سلطان محمد عادل نے بنوایا تھا اس کے قریب آپ کا مزار ہے۔ اخبار الاخیار۔۔۔
مزید
آپ پانی پت کے رہنے والے تھے، آپ کو بو علی قلندر بھی کہتے ہیں، بڑے مشہور مجذوب اور ولی اللہ تھے، مشہور ہے کہ اوائل عمر میں آپ نے تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنی تمام تر توجہات کو سلوک و طریقت کی طرف مبذول کردیا تھا اور تمام کُتب کو دریا برد کرکے مجذوب بن گئے، یہ معلوم نہ ہوسکا کہ آپ کس سے بیعت تھے البتہ بعض لوگوں میں یہ بات مشہور ہے کہ آپ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے مرید تھے اور بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آپ خواجہ نظام الدین اولیاء سے بیعت تھے ، لیکن یہ دونوں روایتیں بلا دلیل و بلا حجت ہیں آپ کے کچھ مکتوبات بھی ہیں جو آپ نے عشق و محبت کی زبان میں اختیار الدین کے نام تحریر فرمائے جس میں یہ مضامین ہیں۔ (1) توحید کے معارف و حقائق (2) ترک دنیا (3) طلب آخرت (4)محبت الٰہی آپ کا ایک دوسرا رسالہ بھی عوام الناس میں حکم نامہ شیخ شرف الدین کے نام سے مشہور ہے لیکن ظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ رس۔۔۔
مزید