حضرت داؤد بن احمد دارانی رحمۃ اللہ علیہ یہ ابو سلیمان دارانی کے بھائی ہئں۔بڑی ریاضت اور محنت کرتے تھےاور ابو سلیمان کی صحبت میں رہے ہیں۔معاملات میں انکی باتیں اپنے بھائی کی سی ہیں۔ احمد بن ابی الحواری کہتے ہیں کہ میں نےداؤد سے پوچھا کہ" ایسے دل کی بابت آپ کیا کہتے ہیں کہ جس میں خوش آواز اثر کرتی ہو؟"۔کہا کہ"وہ دل ضعیف اور بیمار ہے اس کا علاج کرنا چاہئیے" ۔ یہ بھی کہا ہے"بکل شیئ صداء و صداء القلب الشبع"یعنی ہر شے کا زنگار ہوتا ہے اور دل کازنگار پیٹ کا بھرنا ہے۔ (نفحاتُ الاُنس)۔۔۔
مزیدحضرت ولید بن عبداللہ السقا رحمۃ اللہ انکی کنیت ابو اسحاق ہے،اور یہ حضرت ذوالنون کےملنے والوں میں سے ہیں۔کہتے ہیں کہ ذوالنون فرماتے تھے کہ میں نے جنگل میں ایک حبشی کو دیکھا ۔جب اللہ کہتا تو سفید رنگ کا ہوجاتا۔ذوالنون کہتے ہیں کہ جو شخص خدا کو یاد کرتا ہے تو در اصل اسکی حالت اور ہی کچھ ہوجاتی ہے۔ولید السقا ۳۲۰ ہجری میں اور بعض کے نزدیک ۳۲۶ ہجری میں فوت ہوئے۔ابو عبداللہ راضی کہتے ہیں کہ میں ولید السقا کی خدمت میں گیا اور چاہتا تھا کہ فقر کے بارے میں ان سے سوال کروں ۔انہوں نے سر اٹھایا اور کہا کہ فقر کا نام اسکو مناسب ہے کہ کبھی بھی خدا کے سوا اس کے دل میں اور کچھ نہ گزرا ہو ،اور وہ قیامت کے دن اس بات کی ذمہ داری سے باہر نکل سکتا ہو۔ (نفحاتُ الاُنس)۔۔۔
مزیدحضرت ابوہاشم یعقوب رحمۃاللہ علیہ یہ بھی مشائخ میں سے ہیں۔ کہتے ہیں کہ مجھے ویہ عید کا دن جو ذوالنون مصری رحمۃاللہ کے ساتھ آیا تھا۔کبھی بھولتا نہیں۔لوگ عید گاہ سے واپس آتے تھے اور کھیلتے کود تے تھے۔ذوالنون کہتے تھے کہ لوگ خوشیاں منا رہے ہیں کہ اپنی امانت ادا کر چکے ہیں لیکن انکو خود یہ معلوم نہیں کہ آیایہ امانت ان کی مقبول بھی ہوئی ہےیہ نہیں۔یعنی رمضان کی عبادت مجھے کہا کہ ایک طرف کو چلیں اور ان کی حالت پر روئیں۔شیخ الاسلام نے کہا کہ یہ حکایت وہی جوہر اور جوہری کی ہےجو شخص کے جوہر کی قیمت نہیں جانتا وہ اسکو پروتا ہےاور جو جانتا ہےوہ اسکو پرونے سےڈرتا ہے کہ کہیں وعید نہ آجائےاور اپنی جگہ پر نہ جائے۔جو لوگ وعید کے لائق ہے وہ توغافل ہیں اور جو اس کے لائق نہیں وہ بیدار تھے وہ وعید ان سے جا لپٹی۔شیخ الاسلام کہتے ہیں کہ سیاہ موصلی نے کہ۔۔۔
مزیدحضرت ابوالاسود مکی رحمۃاللہ علیہ یہ حضرت شیخ عزیزی کی زیارت کو گئے اور جاکر سلام کہا اور کہا کہ اے شیخ میں آپکا دوست ہوں عزیزی جگہ سے کود پڑے اور کہنےلگے۔علیک السلام ،مزاج کیسے ہیں اور اس وقت غائب ہوگئےتین دن تک اسی پر رہے۔ابوالاسودنے جان لیا کہ عزیزی پانی ،مٹی اور انسانی رسوم سے سے باہر ہوہوگئے ہئے،انکی زیارت کو کافی سمجھا،اورواپس آئے۔ ۴۔ابوالاسود چرواہا رحمۃاللہ علیہ یہ بھی مشائخ میں سے ہیں۔۔ایک وقت جنگل میں اپنی بیوی سے کہنے لگے۔تم سلامت رہو میں تو جاتا ہوں۔ان کی ہمشیرہ نے ایک لوٹا دودھ کا بھرا ہوا دیا۔جب وضو کی ضرورت ہوئی تو چاہا کہ وضو کرےلیکن لوٹے میں دودھ نکلا۔پھر واپس آئے اور کہنے لگے میریپاس پانی نہیں ہےکہ جس سے وضو کروں،مجھے پانی کی ضرورت ہے۔دودھ کا کیا کروں گا ۔لوٹے کو دودھ سے خالی کیا اور اس میں پانی بھر د۔۔۔
مزیدحضرت ابو ہاشم صوفی علیہ الرحمۃ آپ اپنی کنیت ہی سے مشہور ہیں شام کے علاقے کےآپ شیخ ہیں ۔دراصل کوفی ہیں"اور سفیان ثوری کے ہم عصر ہیں ۔سفیان ثوری ؒ بصرہ میں ۱۲۱ ہجری میں فوت ہوئے۔وہ فرماتے ہیں!"لولا ابوہاشم الصوفی ما عرفت دقائق الریا"یعنی اگر ابو ہاشم صوفی نہ ہوتےتو میں ریا کی باریکیاں نہیں پہچانتااور یہ بھی فرماتے ہیں کہ جب تک میں نے ابو ہاشم کو صوفی نہ دیکھا تھا۔مجھ کو معلوم نہ تھا کہ صوفی کیسے ہوتے ہیں۔پہلے ان سے بہت بزرگ گزرے ہیں جو زہد ،پرہیزگاری اور توکل اور محبت کے طریق میں نیک عمل تھے۔لیکن اول جس شخص کو صوفی کہا گیا وہ یہی حضرت ہیں پہلے ان سے کوئی اس نام سے بلایا نہیں گیا۔علیٰ ھذا صوفیوں کے لیے پہلے جس نےخانقاہ بنائی یہی ہیں۔انہوں نے شام کے ٹیلے پر خانقاہ بنائی اس کا سبب یہ ہوا تھا کہ ایک آتشت پرست امیر شکارکو گیا تھا۔راستہ میں اس۔۔۔
مزیدحضرت فاضل جلیل مولانا مفتی سیف الرحمان قریشی، ہزارہ علیہ الرحمۃ عمدۃ المدرسین ابوالوفاء مولانا مفتی سیف الرحمان بن علامہ الدہر حضرت علامہ قاضی عبدالسبحان کھلا بٹی رحمہ اللہ (م ۱۲؍شوال/ ۲۰؍مئی ۱۳۷۷ھ/ ۱۹۵۸ء بن مولانا قاضی مظہر جمیل ۱۹۳۷ء میں بمقام کھلا بٹ (ہزارہ) پیدا ہوئے۔ آپ نسباًقریشی علوی میں اور عظیم علمی و روحانی خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں میں حاصل کی۔ تین سال دارالعلوم انجمن خدام الصوفیہ گجرات اور دو سال جامعہ حضرت میاں صاحب شرقپوری رحمہ اللہ، میں اپنے والد ماجد علیہ الرحمۃ سے پڑھتے رہے۔ ایک سال دارالعلوم اسلامیہ رحمانیہ ہری پور (ہزارہ) اور ایک سال مدرسہ احسن المدارس راولپنڈی میں درسِ نظامی کی تحصیل کے بعد ۱۹۵۷ء میں سندِ فراغت حاصل کی۔ دستار بندی حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خاں نعیمی رحمہ اللہ (م۳؍رمضان المبارک) نے فرمائی۔ فراغت کے بعد آپ نے ۔۔۔
مزیدحضرت مولانا حکیم محمد رمضان علی قادری، سنجھورو (سانگھڑ) ابوالحسان مولانا حکیم محمد رمضان علی قادری بن حکیم اللہ بخش قریشی ۶؍رمضان المبارک ۱۳۴۰ھ/ ۳؍مئی ۱۹۲۲ء میں بمقام شاہ پور جاجن، تحصیل بٹالہ ضلع گورو اسپور (بھارت) پیدا ہوئے۔ آپ کے نانا حاجی کریم بخش علیہ الرحمۃ نہایت متقی، عابد و زاہد تھے۔ صوم و صلوٰۃ کے پابند اور شب بیدار تہجد گزار تھے۔ تلاوتِ قرآن مجید اور ذکر و فکر آپ کا محبوب ترین مشغلہ تھا۔ قصبہ شاہپور جاجن میں آپ نے پکی مسجد تعمیر کروائی اور اپنی ذاتی رقم سے تمام ضروریاتِ مسجد کا اہتمام کیا۔ مسلمانوں کو نماز کے مسائل سکھا کر نماز پڑھنے کا پابند بنایا۔ بچوں اور بچیوں کو قرآن پاک پڑھانے کے علاوہ دینیات کی تعلیم بھی دیتے اور حاجت مندوں، یتیموں اور بیواؤں کی حاجت برآری میں کوشاں رہتے۔ تعلیم و تربیت: مولانا حکیم محمد رمضان علی قادری نے فارسی میں گلستان، بوستان اور عربی کی تمام کتب درسِ ۔۔۔
مزید