حضرت ابوالبقاء بکھری میر رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ف۔۔۔۔ ۹۴۷ھ سداب بکھر میں عظیم المرتبت صوفی گذرے ہیں۔ نصیر الدین ہمایوں بادشاہ جب سندھ میں آیا تو بکھرکے باہر خیمہ زن ہوا۔ بزرگانِ دین سے باتیں کرنا ان کا خاص مشغلہ تھا ۔ چناں چہ وہ میر ابو البقاء کی جھونپڑی میں عقیدت مندانہ طور پر حاضر ہوا ۔ کافی دیر تک فقیرانہ انداز کی صحبت رہی، کسی جاسوس نے اس ملاقات کا ذکر شاہ حسین ارغون والیِ سندھ سے کردیا۔ اس نے آپ کو تیر برسا کر شہید کرادیا، یہ واقعہ ۹۴۷ھ کا ہے ہمایوں کو آپ کی شہادت کا سخت رنج ہوا۔آپ کو بکھرہی میں خواجہ عبیداللہ احرار کی خانقاہ میں دفن کردیا گیا۔ (تذکرہ مشاہیر سندھ، ص ۷۳؛ تذکرہ مذکیر احباب، ص ۱۷۱۔۱۷۴) (تذکرہِ اولیاءِ سندھ)۔۔۔
مزیدحضرت احمد بغدادی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ احمد بغدادی صاحبِ معرفت بزرگ تھے۔ حضرت غوث الاعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے حکم کی تعمیل میں سرزمینِ سندھ کی طرف تشریف لائے۔ آپ کے ہم راہ چالیس خدّام تھے، جن میں ہر ایک صاحبِ حال و باکمال تھا، چلتے وقت بغداد کے دجلہ سے پانی کا ایک کوزہ بھرا تھا اس کو آپ نے اور آپ کے تمام رفقا نے تمام سفر میں پینے اور کھانے نیز دیگر ضروریات میں صرف کیا پھر بھی کوزے کا پانی ختم نہ ہوا، بلا شبہ یہ آپ کی کرامت تھی، آپ کا مزار مکلی پر ہے، ساتھ آپ کے بھائی محمد کابھی مزار ہے، جو بغداد سے آپ کے ہم راہ آئے تھے۔ (تحفۃ الطاہرین، ص ۴۳) (تذکرہِ اولیاءِ سندھ)۔۔۔
مزیدحضرت احمد درویش رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ف۔۔۔ ۹۳۴ھ ۱۵۲۷ م احمد بن مخدوم اسحاق ہالہ کندی ضلع حیدر آباد سندھ کے صاحبِ مقامات اور بلند مرتبت بزرگ تھے، زہد و تقویٰ اور شرافت و نجابت میں یکتائے روزگار تھے، گوشہ نشین اور عزلت پسند تھے، صاحبِ حال اور صاحبِ کشف تھے۔ کبھی کبھی محفلِ سماع میں بھی شریک ہوتے اور وجد وجذب کی کیفیات آپ پر طاری ہوجاتی تھیں۔ آپ کے والدِ گرامی مخدوم اسحاق اپنے دور کے مشہور صوفی اور درویش تھے، ہالہ کندی میں ان کے علم و فضل کا بڑا چرچا تھا، مخدوم احمد درویش نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی ، بعد میں بعض دیگر ناموَر حضرات سے علمی اکتساب کیا۔ بہ قدرِ ضرورت حصولِ علم کے بعد آپ نے تزکیۂ نفس اور صفائے باطن کی طرف توجّہ دی۔ آپ کے زہد و ورع، ۔۔۔
مزیدحضرت ابوالحسن میاں رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ آپ قطب الاقطاب شیخ بہاؤ الدین زکریا ملتانی کی اولاد سے تھے۔ تحفۃ الکرام کی روایت کے مطابق آپ سیّد میراں محمد جون پوری کے مرید اور ان سے فیض یافتہ تھے۔ آپ کا مزار کوچۂ ابو بکر مکلی میں ہے۔ (تحفۃالکرام، ج۳،ص۲۵۱؛تحفۃالطاہرین، ص۹۰) (تذکرہِ اولیاءِ سندھ)۔۔۔
مزیدحضرت احمد بخاری سیّد رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ شریعت و طریقت دونوں میں کامل تھے، کہتے ہیں کہ پوری زندگی بیداری میں گزار دی۔ پیر بابو علیہ الرحمۃ کی صحبتیں اٹھائے ہوئے تھے، آپ اپنی وصیّت کے مطابق شہرِ ٹھٹھہ میں آسودۂ خواب ہیں۔ (تحفۃالطاہرین، ص ۱۷۰) (تذکرہِ اولیاءِ سندھ)۔۔۔
مزیدحضرت احمد بن ہوتی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ بلند پایہ بزرگ اور مستجاب الدعوات ولی تھے، کبھی کبھی حلقۂ سماع میں جاتے تو وجد کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔ ان کے بھائی محمد، جو خود بھی صاحبِ کمال ولی تھے، ہمیشہ ساتھ رہتے تھے؛ لوگ دور دور سے ان کی خدمت میں دعا کرانے کے لیے حاضر ہوتے تھے۔ ایک مرتبہ بارش نہ ہونے کی وجہ سے قحط سالی کی سی صورت پیدا ہوگئی، لوگ آپ کی خدمت میں دعا کرانے کے لیے حاضر ہوئے۔ اُس وقت حلقۂ سماع منعقد تھا، اتفاقاً رکن الدین ولد دتّہ، جو خود بھی ایک عظیم صوفی بزرگ تھے، حلقے میں آگئے؛ اُن کی ہیبت سے حلقۂ سماع میں کھلبلی مچ گئی، مگر حضرت نے مطلق آنے والےکی طرف دھیان نہ دیا۔ جب حضرت سے وجد کی کیفیت زائل ہوئی تو آپ نے بے ترتیبی اور سراسیمگی کا۔۔۔
مزیدحضرت احمد کتابی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ میاں احمد کتابی رَحِمَہُ اللہ کے والد محمد اکرم گجرات سے نقلِ مکانی کر کے ٹھٹھہ میں آباد ہوگئے تھے، علم و عمل کے اعتبار سے ان کو پورے ٹھٹھہ میں شہرت حاصل تھی ان کے دو صاحبزادے تھے: ایک کا نام میاں عباس تھا اور دوسرے کا میاں احمد ’’ کتابی‘‘ کا لقب ان کو بارگاہِ نبوّت سے عطا ہوا تھا، ٹھٹھہ کے مشہور عالم مخدوم عنایت اللہ بھی ان کے شاگرد تھے۔ میاں احمد کتابی بڑے صاحبِ علم و فضیلت و کشف و کرامت تھے، آپ کا مزار مکلی پر شیخ جید کے مزار کے شمال میں واقع ہے۔ (تحفۃالکرام، ج۳، ص ۲۲۴؛ تحفۃالطاہرین، ص۳۶) (تذکرہِ اولیاءِ سندھ)۔۔۔
مزیدحضرت ابو تراب ترابی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کہاجاتا ہے کہ پورے برِّصغیر پاک و ہند کے پہلے صوفی بزرگ شیخ ابو تراب تھے، یہ شرف سر زمینِ سندھ کو حاصل ہے کہ اس برِّصغیر کے پہلے صوفی اس خطۂ زمین پر آسودہ خواب ہیں ، شیخ ابو تراب بنو عباس کی حکومت کی طرف سے سندھ کے علاقوں پر حاکم مقرر ہوئے تھے، آپ تبعِ تابعین سے تھے۔ آپ شہید ہوکر ٹھٹھہ سے ۱۰ میل کے فاصلے پر مدفون ہوئے۔ مزارِ مبارک پر جو کتبہ نصب ہے اس پر سنِ تعمیر ۷۷۱ ھ درج ہے۔ آپ شیخ ترابی کے لقب سے مشہور ہیں۔ (تحفۃ الکرام، ج۳، ص ۲۵۳) (تذکرہِ اولیاءِ سندھ)۔۔۔
مزیدحضرت احمد صاحب، مولانا بھر چونڈوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ مولانا احمدبن مولانا عبدالغفار بھرچونڈوی مستجاب الدعوات ولی تھے، بلا امتیازِ ملّت و مذہب لوگ آپ کے معتقد ہیں، حلقۂ معتقدین بہت وسیع ہے، جب بازار سے گزرتے تو ہندو اپنے ترازو بھول کر آپ کے پیچھے چل پڑتے۔ جب حضرت حافظ محمد عبداللہ بھرچونڈوی کا وصال ہوا تو حضرت عبدالرحمٰن بھرچونڈوی کی رسمِ دستار بندی آپ نے فرمائی، آپ سندھی کے بہترین شاعر تھے ،آپ نے مشکوٰۃ شریف کا سندھی ترجمہ کیا ہے اور بعض دوسرےعلمی رسائل بھی تصنیف کیے ہیں۔ سندھی زبان میں آپ صاحبِ دیوان تھے ، تاریخ ِ وفات اور مقامِ دفن معلوم نہ ہوسکا۔ (عبدالرحمٰن، ص ۱، ۲۱، ۲۱۲) (تذکرہِ اولیاءِ سندھ)۔۔۔
مزیدحضرت ابو الحسن داہری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ الحاج عارف باللہ صوفیِ باصفا ، عالمِ باعمل ، متکلمِ بے بدل ، محدثِ زمانہ ابو الحسن داہری نقشبندی بارھویں صدی ہجری میں نواب شاہ سندھ کے رہنے والے تھے، ظاہری علوم سے فراغت کے بعد شیخ عبدالرّسول صدّیقی نقشبندی کے دستِ حق پرست پر بیعت کی، متعدد کتابوں کے مصنّف ہیں، ان میں: ’’یَنَابِیْعُ الْحَیَاۃِ الْاَبَدِیَّۃ فِیْ طُرُقِ اَصْلَابِ النَّقْشْبَنْدِیَّۃ‘‘ مشہور و معروف ہے، اس میں حدیث، فقہ، تصوّف اور علمِ اَخلاق کے بہترین مضامین شامل ہیں۔ (تذکرۂ مشاہیرِ سندھ، ص ۱۲۴) (تذکرہِ اولیاءِ سندھ)۔۔۔
مزید