حضرت ابراہیم سیّد علامہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ علامہ سیّد ابرہیم صاحبِ ورع بزرگ تھے، علمِ جفر وغیرہ کے ماہر تھے۔ شیخ حسن قُدِّسَ سِرُّہٗ سے علومِ معرفت میں استفادہ کیا اور تین مرتبہ چلّے میں بیٹھے۔ آپ کا مزار ٹھٹھہ میں مرشِد کے مزار کے پاس ہے۔ (’’تحفۃالطاہرین‘‘، ص ۱۰۹) (تذکرہِ اولیاءِ سندھ)۔۔۔
مزیدحضرت ابراہیم بخاری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ عارفِ کامل اور محقّقِ اجل تھے۔ صاحبِ کرامت تھے، ایک نابینا شخص خدمت میں آیا اور گزارش کی کہ میری نابینائی کی واپسی کے لیے کچھ کریں ۔ آپ نے فرمایا اب تیر قضا کی کمان سے نکل چکا ہےیہ تو نہیں ہوسکتا ؛البتّہ کشائشِ رزق کا انتظام ہوسکتا ہے، تم ہر روز بعدِ عشا دو رکعت نفل پڑھ کر ان کا ثواب امامینِ کریمین کی روح کو پہنچا یا کرو اور مصلّے کے نیچے ہاتھ ڈال کر دو روپیہ اٹھا لیا کرو۔ چناں چہ وہ شخص جب تک زندہ رہا اس کو دو روپیہ روزانہ ملتے رہے۔ آپ کا مزار ٹھٹھہ کے محلّہ نندسر میں واقع ہے۔ (’’تحفۃالطاہرین‘‘، ص ۱۴۴) (تذکرہِ اولیاءِ سندھ)۔۔۔
مزیدحضرت ابنِ محمد ثانی ہالائی مخدوم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ مخدوم امین محمد ولد مخدوم محمد زمانِ ثالث حضرت مخدوم نوح سخی سرور کی اولاد سے تھے اور سجادہ نشین تھے۔ ۱۹؍ رجب ۱۲۵۶ھ میں پیدا ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیوی دولت سے بھی نوازا تھا۔ آپ کے ہم عصر پیر سیّد رشید الدین پیر جھنڈا ثالث تھے۔ آپ کو ان سے فطری محبّت تھی۔ آپ بلند پایہ شاعر تھے۔ سندھی میں شعر کہتے اور تمام اصنافِ شعر پر عبور حاصل تھا۔انسانیت کے اعلیٰ اوصاف آپ کی ذات میں بہ درجۂ اتم موجود تھے۔ ۴۷؍ سال کی عمر میں وفات پائی، ۲۷؍ رمضان ۱۳۰۳ھ سنِ وفات ہے۔ متعدّد شعرا نے آپ کے مرثیے لکھے اور تاریخِ وفات بھی ؎ ز ترحیل مخدوم جان جہان جہاں شد گرفتار رنج و تعب ازاں روز و شب قدر گفتم بجان محمد امین گشتہ واصل برب (’’تذکرہ مشاہیرِ س۔۔۔
مزیدحضرت ابو بکر نقشبندی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ آپ مخدوم ابراہیم نقشبندی کے صاحبزادے تھے اور خلیفہ تھے ۔ کہتے ہیں کہ بعد از وفات جو آپ کا جنازہ لے کر گئے تو پردۂ غیب سے ہزاروں پرند نمودار ہوکر جنازے پر سایہ فگن ہوگئے اور جو ں ہی جنازہ کاندھوں پر سے، اتار ا گیا پر ند غائب ہوگئے۔ آپ کامزار مکلی پر ہے۔ (تحفۃالطاہرین، ص ۸۰) (تذکرہِ اولیاءِ سندھ)۔۔۔
مزیدحضرت ابراہیم سیّد رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ بلند پایہ بزرگ ہوئے ہیں ، ایک دن مسجد میں بیٹھے تھے کسی نے مال چرانے کی خاطر شہید کردیا۔ آپ کا مزار خشتی حویلی کے گوشے میں ٹھٹھہ میں واقع ہے۔ (’’تحفۃالطاہرین‘‘، ص۱۰۷) (تذکرہِ اولیاءِ سندھ)۔۔۔
مزیدحضرت ابراہیم ٹیپو رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ درویش ابراہیم ولد نکورو ٹیپو نے زندگی میں بڑی ریاضتیں کی تھیں، جنگل کے گھاس پھوس اور دانوں پر گزارہ تھا، تمام زندگی متعارف غذاؤں سے مجتنب رہے،مستجاب الدعوات تھے ، آپ کا مزار شریف سکر باری میں ہے۔ (’’حد یقۃ الاولیاء‘‘، ص ۲۰۸) (تذکرہِ اولیاءِ سندھ)۔۔۔
مزیدآسو بودلہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ آسو بو دلہ سیّد محمد یوسف مہدوی کے مریدوں میں سے تھے۔ صاحبِ کرامت بزرگ تھے۔ آپ کا مزار مکلی پر اپنے شیخ کے قریب ہی واقع ہے۔ (’’تحفۃ الطاہرین‘‘ ،ص۸۹) (تذکرہِ اولیاءِ سندھ)۔۔۔
مزیدحضرت آلو درویش رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ یہ ایک مجذوب تھے، اصل میں ہندوستان کے رہنے والے تھے، بالکل خاموش شہر کے گلی کوچوں میں پھرتے رہتے تھے، یا پھر جنگلات سے لکڑیاں کاٹ کر لاتے اور لوگوں میں بانٹ دیتے صاحبِ کشف وکرامت تھے، سانکرہ کے کنارے آپ کا مزار واقع ہے۔ (’’حدیقۃ الاولیاء‘‘، ص ۲۳۹ ۔۲۴۰) (تذکرہِ اولیاءِ سندھ)۔۔۔
مزیدحضرت ابراہیم نقشبندی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ یہ دراصل روہڑی کے باشندے تھے،بعد میں ٹھٹھہ آ کر قیا م پزیر ہوئے، ذکر کے ذریعے لوگوں کو ظلمات سے نکالتے تھے، آپ کی کرامات مشہور ہیں، مزار مکلی پر ہے۔ (’’تحفۃالکرام‘‘، ج۳، ص ۲۳۶) (تذکرہِ اولیاءِ سندھ)۔۔۔
مزیدمخدوم آدم نقشبندی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ مخدوم آدم بن عبدالاحد بن عبدالر حمان بن عبدالبا قی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سیّدنا صدّ یق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی نسلِ پاک سے تھے ،آپ سندھ میں شیخ آدو کے لقب سے مشہور ہیں،سندھ میں سلسلۂ نقشبندیہ کے پہلے بزرگ آپ ہی ہیں۔ آپ کے اَجداد میں دو بھائی تھے: بڑے بھائی کا نام عبدالباری اور چھوٹے کا نام عبدالخالق تھا۔ مخدوم عبدالخالق ٹھٹھہ میں اقا مت پزیر تھے،جب سلطان محمود غزنوی نے سندھ پر قبضہ کیا تو مخدوم وعبدا لخالق کے علم و عمل اور زہدوتقویٰ سے متا ثر ہو کر ان کو شاہی اعزازات سے نوازا ،مخدوم آدم انھی کی اولاد میں سے ہیں۔ مخدوم آدم کو جب بادشاہ عا لمگیر کی دوستی کا حال معلوم ہوا تو آپ ٹھٹھہ سے دہلی آئے، یہاں آپ کی ملاقات حضرت مجددِ الفِ ثانی کے&۔۔۔
مزید