/ Friday, 14 March,2025


شیخ الاسلام حضرت علامہ سید محمد مدنی اشرفی جیلانی المعروف مدنی میاں   (192)





کاش اس منزل پہ میرا ذوق رندانہ رہے

کاش اس منزل پہ میرا ذوق رندانہ رہے تیرا افسانہ جہاں پر میرا افسانہ رہے اللہ اللہ رے تجاہل آپ کا اس رند سے جیسے بیگانے کے آگے کوئی بنگانہ رہے بس مرے حسن تخیل سے سنوارا کر اسے کیوں تری زلفِ حسیں منت کش شانہ رہے کم نہیں یہ التفات برق چشم خشم گیں کیا ہوا زدمیں اگر میرا ہی کاشانہ رہے دیکھ تجھ سے کہہ رہی ہے کیا مری تشنہ لبی رہتی دنیا تک ترا گردش میں پیمانہ رہے عقل والے جن کی زلفوں میں الجھ کر رہ گئے وہ شکار شعبدہ بازئ رندانہ رہے مجھ کو راس آئی کہاں ہوش وخرد کی بندگی کیوں نہ میری بات اے اخؔتر حکیمانہ رہے ۔۔۔

مزید

جو پیش ان کو کبھی ہدیۂ لہو کرتے

جو پیش ان کو کبھی ہدیۂ لہو کرتے تو اس طرح انھیں ہم اور خوبرو کرتے صبا کو غرق یم خون آرزو کرتے چمن کے ہر ورق گل کو شعلہ رو کرتے گلوں کو خون تمنا سے سر خرو کرتے چلے ہیں آج وہ فیضان رنگ و بو کرتے انھیں کے لطف مسلسل سے شہ ملی ورنہ مجال کیا تھی ہماری کہ آرزو کرتے ہمیں تو لوٹ لیا احترام الفت نے وہ آئے اور گئے ہم رہے وضو کرتے وہ یم سے لفظ تمنا ہی سن کے چونک پڑے بڑا غضب تھا اگر شرح آرزو کرتے کسی کی غیرت خفتہ کی نیند کب جاتی اگر نہ منت پیمانہ وسبو کرتے وہ میرے دل میں چھپے ہیں نہ جان لے کوئی یہ بات تھی جو رہے ان کی جستجو کرتے اک آہ سرد دل عندلیب سے نکلی ہمیں جو دیکھ لیا ان سے گفتگو کرتے غرور حسن کے اخؔتر حواس اڑجاتے جو میرا آئینئہ دل وہ رو برو کرتے ۔۔۔

مزید

خدائے گردشِ لیل و نہار کیا ہوگا

خدائے گردشِ لیل و نہار کیا ہوگا مٓال مرحلۂ انتظار کیا ہوگا کہیں اجل کے ارادے بھی خام ہوتے ہیں تسلیاں وہ ہمیں دیں ہزار کیا ہوگا متاع قلب و جگر کی وہ لاج رکھ نہ سکے اب اور حادثۂ روزگار کیا ہوگا مٓال آتشِ نمرود دیکھنے والا خرد کی بخیہ گری کا شکار کیا ہوگا  سوادِ زلف میں خوابیدہ دل نہ جاگ اٹھے چلے ہیں آج وہ کرنے سنگار کیا ہوگا خدا بچائے بڑے سادہ لوح غنچے ہیں خزاں چلی ہے برنگ بہار کیا ہوگا ظہور حسن کی اخؔتر ہماہمی کے سوا نگار خانۂ روز شمار کیا ہوگا ۔۔۔

مزید

مت پوچھ کیوں اداس مرا انتظار ہے

مت پوچھ کیوں اداس مرا انتظار ہے پابست زلف وعدۂ روز شمار ہے کب تک غرور حسن کی یہ لن ترانیاں عالم نگار خانہ ناپائیدار ہے لمحات پر قنوط نے زلفیں بکھیر دیں اے مرگ ناگہاں تجھے کیا انتظار ہے دل سے قدوم ناز کی عشوہ گری نہ پوچھ ہر داغ زخم نافۂ مشک تتار ہے بلبل اسیر مہر لبی پھول زہر خند کس کو خزاں کہیں گے اگر یہ بہار ہے تارے بھی ہیں ضرور گرفتار انتظار شب زندہ داریوں سے بھلا کسکو پیار ہے باتیں جنوں نواز قدم سرفراز ہوش ہشیار کتنا اخؔتر غفلت شعار ہے ۔۔۔

مزید

آدمی کیا ہے آدمیت کیا

آدمی کیا ہے آدمیت کیا حسن سیرت نہیں تو صورت کیا آپ کا مجھ پہ ہے کرم ورنہ بے حقیقت کی ہے حقیقت کیا حشر کا انتظار کیا معنی؟ بے حجابی نہیں قیامت کیا؟ اپنی خدمت میں بس رکھا کیجئے اس سے بڑھ کے ہر اجر خدمت کیا؟ انکی بیڑی ہو اور پاؤں مرے میں کروں گا بھلا حکومت کیا؟ توڑنا ہے انانیت کا سبو اور بیعت ہے کیا ارادت کیا کھینچتی ہے کوئی کشش ہرسو دنیا کیا ہے بہار جنت کیا اس مرے ماہ وش کے دو گیسو یہ شریعت ہے کیا طریقت کیا ہے فریب اپنے ہی نگاہوں کا اور اخؔتر ہے حسن طلعت کیا ۔۔۔

مزید

یہ گل نہیں یہ عنادل نہیں یہ خار نہیں

یہ گل نہیں یہ عنادل نہیں یہ خار نہیں وہ کون ہے جو ستم خوردۂ بہار نہیں یہ تیرے پند سر آنکھوں پہ ناصحا لیکن خدا گواہ محبت پہ اختیار نہیں پھر اس میں آیا کہاں سے کمالِ رعنائی اگر یہ کاہکشاں انکی رہگذار نہیں بس اپنی شومئی قسمت سے جی لرزتا ہے یہ مت سمجھنا مجھے تجھ پہ اعتبار نہیں بروز حشر شفاعت کا دیکھ کے منظر وہ کون ہوگا جو کہہ دے گناہ گار نہیں تمام خلق کا میں خیر خواہ ہوں اے دوست خدا گواہ کسی سے مجھے غبار نہیں نہیں تو شیخ جبیں خود بخود ہی جھک جاتی یہ کوئی اور جگہ ہے مقام یار نہیں یہ کہہ کے کود پڑے آگ میں خلیل اخؔتر کہ نار عشق سے بڑھ کر تو کوئی نار نہیں ۔۔۔

مزید

انداز لطف اس کا ہے بے حساب الٹا

انداز لطف اس کا ہے بے حساب الٹا خود قتل بھی کرے ہے خود لے ثواب الٹا شبنم فشاں نہ ہوگا کب تک سحاب مستی کب تک پڑا رہے گا جام شراب الٹا لیکن کہیں نہ پایا جز رنگ خود فربہی ان کی کتاب دل کا ہر ایک باب الٹا میرے نیاز سے ہے دنیائے نازتاباں لیکن سمجھ رہے ہیں عالیجناب الٹا ۔۔۔

مزید

رہوں گا میں رہین منت آہ و فغاں کب تک

رہوں گا میں رہین منت آہ و فغاں کب تک نہ آئے گا میری بالیں پہ وہ جان جہاں کب تک چلو فرش زمیں کو غیرت ہفت آسماں کردیں سنہیں یہ اشک ہائے غم غرورِ کہکشاں کب تک یہ تیشہ اور یہ سنگ گراں یہ دشت پیمائی نیاز عشق کا ہوتا رہے گا امتحاں کب تک مجھے ڈر ہے زمانے کے قدم آگے نہ بڑھ جائیں خیال خطرۂ منزل امیر کارواں کب تک منائیں خیریت اپنی حریفان گل ولالہ غبار خاک پر ہوگا فریب کہکشاں کب تک مجھے معلوم ہے اے اشتراکیت کے فرزندو حصار عافیت کے دعوہائے بے نشاں کب تک نہ رکھ صہبائے عرفاں کورہینِ میکدہ ساقی رہے گی خوگر غفلت سرشت میکشاں کب تک دل کہسارے پھوٹی ہے جوئے نرم رو اخؔتر ہمارا سنگ دل ہم پر نہ ہوگا مہرباں کب تک غرور حسن ہونے کو ہے نذر گردش دوراں نیاز عشق کا ہوتا ہے گا امتحاں کب تک بھرم کھل کررہے گا لیڈران قوم کا اک دن غبار خاک پر ہوگا فریب کہکشاں کب تک زمانے کا تقاضا ہے پلا اب جام بیداری رہے گی خوگر غفلت سرشت م۔۔۔

مزید

حسرتی اے مژدۂ آمد اسی منزل میں ہے

حسرتی اے مژدۂ آمد اسی منزل میں ہے پہلے مرنے کی تھی اب جینے کی حسرت دل میں ہے جان دینے کی تمنا ہر رگ بسمل میں ہے کیا کرے مجبور ہے خنجر ید قاتل میں ہے پھر بھلا کس طرح ہواندازۂ دامان شوق اک اک عالم جس کے ہر ہر گوشہ ہائے دل میں ہے میرے اشک آتشیں کرنیں اٹھا کر لے گئیں غایت سوز اس لئے خورشید کی محفل میں ہے ہائے قسمت میری خامی مجھ سے بہتر ہوگئی لوگ کہتے ہیں کہ اس کا ذکر اس محفل میں ہے حسن کی حلقہ بگوشی بھی ہے کیا اشک آفریں رنگ کالا ہے مگر کیا بات انکے تل میں کہہ رہی ہے دیکھ سوئے ماہ پرواز چکور حاصل جان و صل کی اس سعی لاحاصل میں ہے ہر رگ و پے فیضیاب سوز اسماعیل ہے دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے ڈوبتا دیکھا مجھے اور ہاتھ ملتا رہ گیا کس قدر بے چارگی آزادئ ساحل میں ہے ناصحا مت چھیڑ اخؔتر کو بس اپنی راہ لے نشۂ عشق و محبت اسکے آب و گل میں ہے ۔۔۔

مزید

ہمارا نالۂ شبگیر مستجاب آیا

مجاہد دوراں مولاناسید مظفر حسین کی نذر ہمارا نالۂ شبگیر مستجاب آیا بڑا حسین زمانے میں انقلاب آیا مری امید کی موجیں یم تمنا سے نہ کیوں تڑپ کے اٹھیں وقت اضطراب آیا تھی جس کے فکر و تدبر سے بے خبر دنیا عروج چرخ سیاست سے کامیاب آیا وہ جس سے دشت و بیاباں ہوں روکش گلشن میرے افق پہ وہی پارۂ سحاب آیا کہو گلوں سے کہ دامان آرزو بھرلیں کوئی لئے ہوئے جام شراب ناب آیا جلو میں پیار و محبت کی چاندنی لے کر شب فسردہ میں رخشندہ ماہتاب آیا بنا ہے سارا چمن لالہ زار آج کے دن یہ کون آیا کہ آئی بہار آج کے دن ۔۔۔

مزید

سنو میری کہانی چاہتا ہوں

سنو میری کہانی چاہتا ہوں نگاہوں کی زبانی چاہتا ہوں سوا ان کے اٹھا پائے نہ کوئی کمال ناتوانی چاہتا ہوں سر مژگاں کے تاروجگ مگاؤ شب غم بھی سہانی چاہتا ہوں مرے ناوک فگن چشم عنایت محبت کی نشانی چاہتا ہوں فنا ہو کے رہ عشق نبیﷺ میں حیات جاودانی چاہتا ہوں عنایت اے نگاہ کیف ساماں شراب ارغوانی چاہتا ہوں نہیں کار عبث شرح تمنا ادائے لن ترانی چاہتا ہوں زباں بن جائے اخؔتر ہر بن مو میں ایسی بے زبانی چاہتا ہوں ۔۔۔

مزید

آجاؤ کہ دل کی دنیا بھی فرودس بداماں ہوجائے

آجاؤ کہ دل کی دنیا بھی فرودس بداماں ہوجائے ہر داغ فروزاں ہوجائے ہر زخم گلستاں ہوجائے اے ہوش و خرد والو دیکھو کیوں دشمن جاں میں اس کوکہوں جو برق نگاہ ہوش رُبا چمکے تو رگِ جاں ہوجائے جو در در ہین فرقت ہو اس درد کا درماں مت ڈھونڈو کیا اچھا نہیں ہے چارہ گرو خود درد ہی درماں ہوجائے عرفان خودی کی وہ منزل عرفان خدا کی منزل ہے خود اپنی ادا جس منزل میں مقصود دل و جاں ہوجائے اک ہم ہیں نچوڑے ہیں جس نے پھولوں کے تبسم سے آنسو اک تم ہو ہنسی آتی ہے تمہیں جب کوئی پریشاں ہوجائے اللہ رے اک مشت خاکی یہ وسعت امکاں لے ڈوبے انسان خدا جانے کیا ہوگر واقف انساں ہوجائے داناؤ! سرشت بخیہ گری ہے وجہ نمو و قدر جنوں کیا لطف جنوں ساری دنیا گر چاک گریباں ہوجائے بدمست گھٹاؤیہ تو کہو اس وقت ہمیں کیا لازم ہے جب ساغر عارض موج میں ہو جب زلف پریشاں ہوجائے پھر جاکے کہیں ہم رنگ شفق ہوگی یہ بیاض خون چمن پہلے تویم خون دل کا طوفان پ۔۔۔

مزید