شیشے گردش میں ہیں نہ پیمانے رقص کرتے ہیں آج میخانے کس کی یاد آگئی خدا جانے آنکھ آنسو لگی جو برسانے شمع رخ کے سبھی ہیں پروانے ساقیا رند ہوں کے فرزانے جذبۂ شوق کا خدا حافظ صبر کے بھر گئے ہیں پیمانے پی کے مے آج دے رہے ہیں دعا ساقیا تجھکو تیرے مستانے گریوں ہی برق بار بار آئی ہر شجر پر بنیں گے کاشانے گرد ساقی ہجوم تشنہ لباں شمع کے گرد جیسے پروانے آب دے کر نہ دے فریب شراب پینے والے نہیں ہیں دیوانے قطرۂ اشک بن گیا موتی آہ دل سے بنے ہیں افسانے رخ کبھی دیکھتے ہیں زلف کبھی ہم بھی کیا ہوگئے ہیں دیوانے پہلے بے ساختہ وہ ملتے تھے رفتہ رفتہ لگے ہیں شرمانے شکل جو چاہے دیکھ لے اخؔتر آدمی دل کا حال کیا جانے ۔۔۔
مزیدجب سے غم کی ترے چاشنی مل گئی باخدا لذتِ زندگی مل گئی مسکرائی کلی دل کے غنچے کھلے تیرا غم کیا ملا زندگی مل گئی دیکھ کر ان کو تشنہ لبی کیا بجھی اور دیدار کی تشنگی مل گئی غالباً کوئی جان بہار آگیا ہر کلی کے لبوں کو ہنسی مل گئی ان کے در پر جبیں کو جھکانا ہی تھا گلشن قلب کو تازگی مل گئی جب تمہارا تصور کیا رات میں دل منور ہوا روشنی مل گئی ۔۔۔
مزیدرندی میں کیوں خیال رہے اعتصام کا ساقی پھر ایک بار چلا دورجام کا بے ساختہ تھے ملنے پر ایسا بدل گئے دیتے نہیں جواب ہمارے سلام کا تاریکئ وطن تو مٹی ہے مگر یہ کیا صبح وطن میں رنگ ہے غربت کی شام کا گستاخ کہہ کے چلدیئے ردسلام میں کیا یہ صلہ ملا ہے مرے احترام کا ۔۔۔
مزیدکیا ادائے نگاہِ ساقی ہے فرش پہ گر کے جام ٹوٹ گیا دنیا کہنے لگی ہے دیوانہ دامن صبر جب سے چھوٹ گیا کج نگاہی سے یہ گمان ہوا شیشۂ دل کسی کا ٹوٹ گیا میرے ناصح نے جب انہیں دیکھا دامن پندو وعظ چھوٹ گیا ناامیدی کے ابر چھائے ہیں بخت اخؔتر بھی آج ٹوٹ گیا ۔۔۔
مزیدصرصرِغم ساتھ ہو یا شادمانی ہو رفیق خاطرِ زندہ کبھی غمناک ہوسکتا نہیں ۔۔۔
مزیدصراحی چوں شود خالی جدا پیمانہ میگردد نہ رقص شیشہ ونے ساغر و پیمانہ میگردد کندگردش زمانہ ساقیا میخانہ میگردد چوں شمع گل شودزاں خاطر پروانہ میگردد صراحی چوں شود خالی جدا پیمانہ میگردد فرا موشد بہار باغ خلد و منظر سینا بکوئے یار چوں ہمدم دل دیوانہ میگردد تپدچوں ذوق سجدہ در جبین عاشقی ہمدم گہے کعبہ شود پیدا گہے بت خانہ میگردد شکست حسن شد، امروز شمع بزم می رقصد نشاط رونقِ محفل دلا پروانہ میگردد چہ گویم منزل اشکم بچشم نازش انجم چوں بر فرش زمیں آید دریک دانہ میگردد بپاس خاطر ناصح ہمی گردم ولے ہمدم دلم محوطواف کوچۂ جانانہ میگردد کسے پرسد زدیدہ ورایں راز عاشقی اخؔتر درون قطرۂ غم صورت جانا نہ میگردد ۔۔۔
مزیدموجوں کا طوفان ہے کیسا ساحل بھی حیران ہے کیسا تیرے ستم پر تجھ کو دعا دوں دیکھ مرا ارمان ہے کیسا صبح کو وعدہ شام کو دھوکا جانے ترا پیمان ہے کیسا لب پہ ہنسی اور ہاتھ میں پتھر آج کا یہ انسان ہے کیسا بزم میں اس کی اخؔتر بھی ہے لیکن وہ انجان ہے کیسا ۔۔۔
مزیدمیرے دل کی حرارت خاطر غم خوار کیا جانے پلے جو عیش میں وہ لذت آزار کیا جانے حقیقت پیار کی معلوم کرنا ہے تو الفت کر نہ سمجھے جو محبت کو وہ ظالم پیار کیا جانے جو ترسیدہ رہا کرتا ہے موج غم کے منظر سے رخ جاناں یہ اپنی جان کا ایثار کیا جانے الجھتا ہوں گلوں کی چاہ میں کانٹوں سے میں اخؔتر محبت کی نظر یہ خارِ دل آزار کیا جائے ۔۔۔
مزیدشہید نازِ جاناں ہیں ادا ان کی سہانی ہے تبسم ان کا فرمانا ہماری کامرانی ہے کہاں تک تجھسے اظہار غم خاطر کروں ہمدم مثالی میری تمہید محبت کی کہانی ہے نہ کیوں نالاں عنادل ہون نہ کیوں بادخزاں آئے کہ جب دست ستمگر میں چمن کی باغبانی ہے شگفتہ ہے مرا زخم جگر آزاد جاناں سے دلِ شوریدہ بھی اسکے تغافل کی نشانی ہے ہے تیری نغمہ سخبی باعث صد کیف و کم اخؔتر مثالی عندلیبان چمن یہ نغمہ خوانی ہے ۔۔۔
مزیدآپ کی زلفِ گرہ گیر سے ڈر لگتا ہے مجھ کو پیچ و خم تقدیر سے ڈر لگتا ہے آمد صبح پیام شبِ دیجورنہ ہو؟ مجھ کو خورشید کی تنویر ڈر لگتا ہے کم نگاہی پہ کہیں حرف نہ آئے اس کی اپنے اس نالۂ شبگیر سے ڈر لگتا ہے ہاں اُسی راز کا اخفاء ہے وبال ہستی جس حسیں راز کی تشہیر سے ڈر لگتا ہے مٹ نہ جائے کہیں دنیا سے نشانِ ایماں آج کے فتنۂ تکفیر سے ڈر لگتا ہے ہاتھ پر ہاتھ دھرے شکوۂ قسمت کب تک کیا تجھے خوبئ تدبیر سے ڈر لگتا ہے جس سے قربت ہے وہی دور نظر آتا ہے اتحاد شکر و شیر سے ڈر لگتا ہے مجھ کو اس خواب سے کیوں اتنی خوشی ہے یارب جس حسیں خواب کی تعبیر سے ڈر لگتا ہے اے جنوں زندگئ خضر میسر ہو تجھے کب مجھے پاؤں کی زنجیر سے ڈر لگتا ہے عشق نے ان کے عطا کی ہے یہ وحشت اخؔتر مجھ کو خود اپنی ہی تصویر سے ڈر لگتا ہے ۔۔۔
مزیدتیری خوش ادائیوں سے ہے یہ جانفزا زمانہ ذرا مسکرا تو دیجئے با ادائے دل ربانہ لگے حسن ماہ پر بھی ذرا ایک تازیانہ ذرا گلعذار چہرے سے نقاب تو ہٹانا مرے جذبۂ محبت سے ہے باخبر زمانہ جہاں سر جھکا دیا ہے وہیں ان کا آستانہ ارے اودل شکستہ یہ ہے کیسی آہ ریزی مجھے ڈر ہے جل نہ جائے کہیں ان کا آستانہ انھیں بجلیوں کی زدپر مری حسرتیں ہیں یارب جنھیں سونپ دے رہا ہوں میں اب اپنا آشیانہ میں بشر ہوں میرے شہپر کی اڑان کچھ نہ پوچھو ہے فضا میں طائرانہ تو فلک پہ صاعقانہ مجھے ان کی برق نظری نے عطا کی زندگانی یہ غلط ہے بجلیوں کی ہے سرشت قاتلانہ کوئی میرے دل سے پوچھے کہ یہ حسن کیا بلا ہے یہ خرامِ حشر ساماں یہ ادائے کافرانہ یہ خدا کی شان دیکھو ہے ہمیں کو حکم سجدہ کبھی سجدہ گاہ عالم تھا ہمارا آستانہ کہیں بجلیوں کی دھمکی کہیں آندھیوں کا کھٹکا ہے اسی میں خیر اخؔتر کہ رہوں میں بے ٹھکانہ ۔۔۔
مزیدساتھیو بڑھ چلو عزم راسخ لئے یہ مصیبت کے طوفان ٹل جائیں گے گر کہیں عزم پر حرف آیا کوئی ہاتھ سے پھر کنارے نکل جائیں گے مجھ کو ہے خوف اے میرے زہرہ جبیں تیرے چھپنے کی کوشش نہ ہو رائیگاں یہ حجابات کتنے قوی ہی سہی گرمئ آہ سوزاں سے جل جائیں گے بادۂ حب سے سرشار گرہیں تو کیا؟مست چشم فسوں کارگرہیں تو کیا؟ آپ کی ایک ٹھوکر کی بس دیر ہے خود بخود گرنے والے سنبھل جائیں گے میرے جان چمن زینت انجمن بس ترے دم سے میرا چمن ہے چمن گر کہیں تم چمن چھوڑ کر چل دیئے تو بہاروں کے رخ بھی بدل جائیں گے اے مرے چارہ گر ہوش سے کام لے لے مری جان کا دم بدم نام لے اس مسیحائے شیریں ادا کی قسم موت کے بھی ارادے بدل جائیں گے اک تبسم نے ان کے یہ کیا کردیا لے لیا اپنے سر ہم نے ساری خطا سوچتے تھے کہ پیش خدا حشر میں ان کا دامن پکڑ کر مچل جائیں گے اتنا مجھ پر کرم آپ فرمائیے سامنے بے حجابانہ مت آئیے ورنہ پیمان ہائے شکیب و سکوں آپ کو دی۔۔۔
مزید