حضرت حسین صفائی شیخ ف۹۳۱ھ/ ۱۵۲۴ء حضرت شیخ حسین صفائی ٹھٹھہ کے عظیم المرتبت بزرگوں میں سے تھے، آپ کی والدہ حضرت پیر مراد رحمۃ اللہ علیہ کی خادمہ تھیں اپنی والدہ کے ہمراہ آپ کا بھی پیر مراد ہاں آنا جانا رہا، چناں چہ ابتداہی سے پیر مراد کی تربیت اور باطنی توجہ سے آپ میں آثار ولایت نظر آنے لگے تھے۔ تذکرۃ المراد میں ہےکہ ایک روز حضرت سید مراد وضو فرمارہے تھے، آپ نے وضو کا بچا ہوا پانی حضرت حسین صفائی کو پینے کے لیے دیا پانی کا پینا تھا کہ آپ کی دنیا ہی بدل گئی ، ایک عجیب روحانی کیفیت آپ پر طاری ہوگئی اور آپ اسی دم ولایت کے درجہ پر فائز ہوکر ولی کامل بن گئے۔ شیخ حسین صفائی بڑے مستغنی المزاج انسان ت۔۔۔
مزیدحضرت حزب اللہ شاہ راشدی ۱۲۵۵/ ف۱۳۰۸ھ/ ۱۸۸۹ء پیر حزب اللہ شاہ راشدی والد علی گوھر اول ولد سید صبغۃ اللہ شاہ سید محمد راشد، (روضی دھنی) رحمہ اللہ علم و عمل اور دین و دنیا کی نعمتیں وراثت میں آپ کو ملی تھیں آپ کی ولادت ۱۲۵۵ھ میں ہوئی چوں کہ آپ کےوالد آپ کے بچپن ہی میں فوت ہوگئے تھے اس لیے آپ کی پرورش گھر کے دوسرے ممبران نے ان کیابتدائی تعلیم اخوند محمد پیر سے حاصل کی پھر مولوی حاجی عیسیٰ محدث سے علم حاصل کیا آپ بچپن ہی میں سجادہ نشین ہوگئے تھے، مگر علم و ادب میں اس وقت بھی اعلیٰ مقام پر فائز تھے کتابوں کا بے حدشوق تھا، دور دراز کے تاجر آپ کے پاس کتابیں لاتے اور منہ مانگے دام وصول کر کے جاتے ، پیر صاحب درگاہ راشدیہ قادریہ کی سجادگی پر مسلسل ۴۵ برس تک جلوہ فرما رہے، ۱۳۰۸ھ میں پیر ص۔۔۔
مزیدحضرت حسن سخی شاہ صوفی ف۔ ۱۳۸۶ھ/۱۹۶۶ء حضرت میاں پیر صوفی حسن شاہ مشرفی رحمانی الہ آبادی المعروف سخی حسن علیہ الرحمۃ ۔ آپ بڑے پائے کے بزرگ تھے۔ آپ اصل الہ آباد انڈیا کے رہنے والے ہیں پھر وہاں سے آپ پیرو مرشد سید مشرف علی شاہ الہ آبادی کے حکم سے ڈھاکہ کے جنگلوں میں رہے پھر وہاں سے داتا دربار لاہور تشریف لائے اور وہاں دوسال گذارنے کے بعد آپ کراچی تشریف لائ۔ آپ کے ہاں ہر جمعرات کو محفل ذکرہوا کرتی تھی۔ جس میں آپ اپنے مریدین و متوسلین کو تلقین کیا کرتے تھے حضرت مولانا رومی رحمہ اللہ کی مثنوی کو بہت زیادہ کیا کرتے تھے۔ اور اسی عنوان پر آپ نے ایک کتاب تصنیف فرمائی۔ ‘‘دل کا چراغ جان اولیاء’’ جو پانچ جلدوں پر مشتمل ہے جس میں آپ نے تمام سلاسل ورحانی کا تفصیل سے ان کے او۔۔۔
مزیدحضرت حافظ علامہ حاجی حامد ف۔۔۱۳۱۵ھ حضرت علامہ حافظ حاجی حامد بن محمد ہاشم بن محمود میمن قوم سےمتعلق تھے قدیمی ٹکھڑ میں آپ کا جنم ہوا تھا ،ابھی آپ تین سال کے بھی نہ ہوئے تھے کہ چیچک کی منحوس بیماری میں مبتلا ہوگئے اور اسی مرض میں آپ نابیناہوگئے، مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو جودل کی روشنی عطا فرمائی تھی وہ آپ کے لیے مشعل راہ بنی صغر سنی میں ہی قرآن حکیم یا د کرلیا تھا اور تمام علوم و فنون علامہ مولانامحمد متعلوی اور مولانا ولی محمد درس ملا کا تیار والے کے پاس پڑھے اور تکمیل کی۔ حضرت حافظ صاحب اپنے وقت کے جید عالم بے نظیر شاعر ، ولی کامل اور اہل بصیرت تھے۔ اگر چہ آپ اعمی تھے لیکن دوسرے نابیناؤں کی طرح بھیک مانگنا ذلت تصور کرتے تھے۔ &nbs۔۔۔
مزیدحضرت جمعہ مخدوم تقریباً ۹۸۱ھ/ ۱۵۷۳ء مخدوم جمعہ سند ھ کے اولیاء میں بلند مقام کے مالک تھے، آپ کا مزار مکلی پر ہے۔ سید علی شیرانی اور شیخ اسحاق اربعائی آپ کے ہمعصر تھے، ایک مرتبہ ایک شخص حاضر خدمت ہوا ان سے اس آیت کریمہ کے معنی دریافت کئ، ‘‘وفی انفسکم افلا تبصرون’’ مخدوم صاحب نے معنی تو بیان فرمادیئے پھر فرمایا ، یہ تو جانتا ہوں مگر جس کو جان لیا جائے مگردیکھا نہ جائے تو اس سے کیا حاصل۔ یارر در خانہ ومن گرد جہاں می گردم!! آب درکوزہ ومن تشنہ لبان می گردم ٍ مخدوم صاحب کی اس گفتگوسے اس پرایسی کیفیت طاری ہوگئی کہ کبھی کھڑاہوتا تھا کہ اور کبھی بیٹھتا تھا ، زارو قطار روتا تھا، حضرت کی نگاہ کیمیا کا یہ اثر ہو اکہ اس کی آنکھوں سے مادی حجابات اٹھ گئے اور ان ۔۔۔
مزیدحضرت بابافرید علی شاہ ہاشمی جہانگیری ابو العلائی آ پ حضرت عمر سرکار کے جانشین ہیں آپ اصلاً لاڑکانہ سے تعلق رکھتے ہیں کراچی میں کورنگی کی ایک مسجد میں کبھی کبھی خطابت بھی کرتے ۔آپ اورنگی ٹاؤن کے سیکٹر ساڑھے گیارہ کے قبرستان میں تشریف لائے اور ایک جگہ پتھر رکھ کرفرمایا مجھے یہیں دفنانا اس کے بعد واپس گئے اور اسی مسجد کے امام سے جہاں آپ کبھی کبھی خطابت کیا کرتے تھے فرمایا کہ ہم اپنی جگہ دیکھ آئے ہیں جمعرات کے دن ہماری نماز پڑھا دینا چناں چہ اسی یشن گوئی کےمطابق آپ نے جمعرات کے دن ۱۳/ربیع الثانی/۱۴۱۷ھ بمطابق ۲۹/اگست /۱۹۹۶ء کو وصال فرمایا۔ آپ نے بہت سارے لوگوں کو مرید کیا جس میں ایک طوائف بھی شامل ہے۔اس نے اپنی بری حرکتوں سے توبہ کی آپ کے مزار پر جو کتبہ لگا ہواہے اس میں شعر درج ذیل ہے۔ فنا کی۔۔۔
مزیدحضرت بلال مخدوم ف۔۔۔۔۔۔۔۔ ۹۳۱ھ مخدوم بلال بن حسن بن ادریس سموں علوم ظاہری و باطنی پر کامل ستگاہ تھی، صاحب کرامت تھے، آپ ٹھٹھہ کے رہنے والے تھے، پھر حکومت کے بجائے درویشی اختیار کرلی اور باغبان (تلتی) کو مسکن بنالیا۔ مخدوم بلال علوم ظاہری میں بڑے باکمال تھے اور دینی علوم میں انھیں بڑی دسترس حاصل تھی اس لیے لوگ ان کے تبحر علمی سے استفادہ کیا کرتے تھے۔ صاحب تحفۃ الکرام میر علی شیر قانع ٹھٹھوی نے لکھا ہے: ‘‘ازجلہ عارفان ، واصل بحق درعلم ظاہر شانی عظیم داشتہ’’ میر معصوم بھکری نے اپنی مشہور کتاب تاریخ معصومی میں لکھا: ‘‘دروادی تقوی وزہد شبیہ و نظیر نداشتہ ، دار علم حدیث و تفسیر مہارت تام۔۔۔
مزیدحضرت چرکس درویش چرکس ولد وفد سرکی ، صاحب کرامت بزرگ تھے حضرت مخدوم بلال جو سندھ کے عظیم عالم تھے آپ کے معاصرین میں سے تھے، آپ کا مزار رونگہ کے مقام پر ہے۔ (حدیقۃ الاولیاء ص ۲۸، تحفۃ الطاہرین ص ۱۱۴) (تذکرہ اولیاءِ سندھ )۔۔۔
مزیدحضرت حامد گنج بخش ف۔۔ ۹۷۸ھ آپ سید عبدالرزاق بن عبدالقادر ثانی کے فرزند بند تھے، صاحب تصرف و کرامت ولی تھے۔ خلق خدا کو آپ سے ہدایت ملی، شاہان وقت آپ کی بارگاہ میں جبہ سائی کو اور جاروب کشی کو فخر جانتے تھے، تمام عمر اسلام کی تبلیغ میں صرف کی، ۹۷۵ھ میں واصل بحق ہوئے، مزار شریف اوچ میں ہے۔ (خزینتہ الصفیاءص ۱۲۷، ۱۲۸) (تذکرہ اولیاءِ سندھ )۔۔۔
مزیدحضرت حاجی ترابی رحمۃ اللہ علیہ آپ کا نام شیخ ابو ترابی تھا لیکن آپ حاجی ترابی کے لقب سے مشہور تھے۔ شیخ ابو تراب بنی عباس کی حکومت کی جانب سے سندھ کے بعض حصوں پر حاکم مقرر ہوئے۔ شیخ ابو تراب کا شمار تبع تابعین میں ہوتا ہے۔آپ نے شہید ہو کر وفات پائی۔ آپ کا مزار مبارک موضع گجو اور موضع کوری کے درمیان ٹھٹھہ سے ۱۰ میل کے فاصلہ پر زیارت گاہ خاص و عام ہے ۔ مزار مبار ک کے گنبد پر جو کتبہ نصب ہے اس میں سن تعمیر ۷۷۱ھ درج ہے۔ (تذکرہ اولیاءِ سندھ )۔۔۔
مزید