حضرت شیخ جیہ شیخ جیہ ولدشیخ نعمت اللہ سندھ کے اکابر اولیاء سے تھے، آپ نے شیخ بہاؤ الدین ذکریا سے روحانی استفادہ کیا تھا، آپ کوچراغ مکلی کہاگیا ہے جبکہ تحفۃ الکرام میں وفور تجلیات کے باعث آپ کو مکلی کا دریا کہا گیا ہے، ہر ماہ کے پہلے پیر کو مزار پر عقیدت مندوں کا بڑا اجتماع ہوتا تھا رات عبادت میں گذرتی تھی اور وجد وسماع کی محافل منعقد ہوتی تھیں، پورے مکلی کے پہاڑ پر سب سے ممتاز درگارہ انہیں کی ہے، اس وقت ان کے مزارپر ایک بڑا گنبد ہے جس میں کئی قبریں ہیں ان کی درگاہ کے عقب میں ان کے والد شیخ نعمت اللہ کی قبر ہے۔ آپ کی وفات سموں دور حکومت میں ہوئی۔ (حدیقۃ الاولیاء ص ۶۱،۶۱)(دارۃ المعارف اسلامیہ ، ص ۴۷۳، مادہ ک) (تذکرہ اولیاءِ سندھ )۔۔۔
مزیدحضرت حسین کاہ برشیخ آپ شیخ بہاؤ الدین ذکریا ملتانی کے معاصر تھے گھاس کھود کر معاش حاصل کرتے تھے، حالت جذب میں ویرانہ کو مسکن بنالیا ، شیخ ذکریا خود آپ کے ملاقات کے لیے پہنچے ، آپ کا مزا رملتان میں ہے۔ (اذکار ابرار،ص۵۸) (تذکرہ اولیاءِ سندھ )۔۔۔
مزیدحضرت درس امین محمد آپ شیخ محمد یعقوب کے فیض یافتہ تھے جو گجرات کے رہنے والے تھے، کہتے ہیں کہ شیخ عثمان بسا اوقات اپنے صاحبزادے سے فرمایا کرتے تھے کہ تم میرے پاس کیوں بیٹھتے ہو، یہاں سے بصد محنت و کوشش ایک دانہ پاؤ گے وہاں جاؤ جہاں سے بلا محنت پور خرمن مل جائے اس میں شیخ امین محمد کی صحبت اختیار کرنے کی طرف اشارہ ہوتا تھا، آپ کی قبر مکلی کے دروازہ کے باہر موجود ہے۔ (تحفۃ الکرام ج۳،۴۳۳۔ تحفۃالطاہرین ص۶۲) (تذکرہ اولیاءِ سندھ )۔۔۔
مزیدحضرت دادن پیر مجذوب مجذوب دادن محمد یوسف رضوی کے معاصر تھے، آپ نے اپنی اولاد کو وصیت کی تھی کہ تم لوگ اگر میرے مزار پر نہ پہنچ سکو تو مجذوب دادن کے پاس چلے جانا۔ (تحفۃ الکرام ج۳، ۲۴۷۔ الطاہرین ص۱۶۷) (تذکرہ اولیاءِ سندھ )۔۔۔
مزیدحضرت درس للہ درس للہ حضرت شیخ محمد یعقوب کے فیض یافتہ بزرگوں میں سے تھے، حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے ٹھٹھہ تشریف لائے، آپ نے خوجہ قوم کی رہائش گاہ کے قریب اپنا مسکن بنایا۔ یہ جگہ حاجی محمد قائم کی مسجد کی قریب تھی، پیر مسکین والا میدان بھی اس کے قریب ہے، شیخ محمد یعقوب شیخ عثمان اورردس امین سے آپ کے گہرے تعالیقاتتھے، مذکورہ میدان میں ان سب بزرگوں کی ملاقات ہوئی تھی۔ مزار مکلی میں ہے۔ (تحفۃ الکرام ج۳،۲۳۴۔ تحفۃالطاہرین ص۷۸) (تذکرہ اولیاءِ سندھ )۔۔۔
مزیدحضرت درگاہی شاہ صاحب تصرف و کرامت بزرگ تھے، ایک مرتبہ نواب سعید خان کے بھائی عزیز خان کے پاس سے بڑے کرو فر کے ساتھ گذرے مگر اپ نے مطلق ان کی طرف توجہ نہ دی انہوں نے سلام بھی کیا تو بیٹھے بیٹھے جواب دے دیا، اس کو بہت غصہ آیا، اس نے آپ کو ڈنڈوں سے پٹوایا، اس عالم میں آپ کی زبان سے یہ کلمہ نکلا: ‘‘کردنی خویش آمدنی پیش’’ کہتے ہیں ایک ماہ بعد جب شخص مذکور نواب صاحب کے حر سرا میں آیا ہوا تھا، نواب کو اس پر شک گذرا، اس کے ہا تھ میں کوڑا تھا وہی کوڑا اس کے سر پر مارا، اور اپنی بیوی کو فوراً ہلاک کردیا۔ (تحفۃالطاہرین ص۱۶۲) (تذکرہ اولیاءِ سندھ )۔۔۔
مزیدحضرت دھنہ شاہ شاہ دھنہ قائم اللیل اور صائم النہار تھے، جس کے حق میں دعا کو ہاتھ اٹھا دیتے تھے وہ بامر اد ہوجاتا، سید کمال کو آپ کی صحبت حاصل تھی، انہیں سے علم ظاہری حاصل کیا تھا، آپ کا مزار ٹھٹھہ کے محلہ مسگر میں واقع ہے۔ (تحفۃالطاہرین ص۱۵۲) (تذکرہ اولیاءِ سندھ )۔۔۔
مزیدحضرت خیر الدین قاضی قاضی خیر الدین صاحب قال و صاحب حال بزرگوں میں تھے، آپ کی قبر نصر پور کے قریب ہے۔ (خزینۃ الاصفیاء،ص۱۷۳، وتذکرہ مشاہیر سندھ، ص۶۲) (تذکرہ اولیاءِ سندھ )۔۔۔
مزیدحضرت حسن مقرری درویش درویش حسن مقرری موذن کےلقب سے معروف تھے بانوت کی بستی کے باشندے تھے پیشہ کے اعتبار سے بڑھئی تھے عام طورپر جلال کی کیفیت طاری رہتی تھی، صاحب کرامت تھے ، آپ کی گفتگو دل کی گہرائیوں میں پیوست ہوکر سامان ہدایت بن جاتی تھی، ایک حافظ صاحب خدمت میں حاضر ہوئے ، حضرت نے دریافت فرمایا کہ تیسوں پارے یاد کر رکھےہیں؟ وہ صاحب بولے جی ہاں! فرمایا کہ تلاوت کے وقت کبھی کوئی کوئی تیر ونشتر تیر دل میں پیوست نہ ہوا؟ بس یہ سننا تھا کہ حافظ صاحب پروجد کی کیفیت طاری ہوگئی وہ بے خود ہوگئے جب عالم صحو کی طرف لوٹے تو صاحب حال ولی بن چکے تھے۔ بانوت کی بستی میں آپکا مزار ہے۔ (حدیقۃ الاولیاء ، ص۱۱۷ تا ۱۱۹) (تذکرہ اولیاءِ سندھ )۔۔۔
مزیدحضرت دتہ سیوستانی قاضی قاضی دتہ بن قاضی شرف الدین المعروف بہ مخدوم راہو سیوستان کے قاضی القضاۃ سر کردہ اعلی سند ولی کامل اور صاحب کرامت بزرگ تھے، بے شمار اولیاء اللہ کی صحبت اور ان سے فیض حاصل کرنے کا شرف آپ کو حاصل تھا، آپ شیخ محمد کی اولاد سے ہیں۔ آپ نے علم تفسیر و حدیث مخدوم بلال سے اور دوسرے علوم دینیہ مخدوم محمد فخر پوترہ اور عبدالعزیزی پردی سے حاصل کیے تھے، اکثر کتب حفظ یاد تھیں، ترکی ہندی اور عربی زبانوں کے ماہر تھے، مرزا شاہ حسن ارغون نے ان سے علمی استفادہ کیا تھا اور ان کی حد درجہ تعظیم و تکریم کیا کرتا تھا میر معصوم بکھری صاحب تاریخ سندھ نے بھی آپ سے علم حاصل کیا تھا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قاضی صاحب کا سن وفات ، ۹۷۰ھ ہے، مزار شریف باغبان میں ہے۔ (حدیقتہ الاولیاء ص۸۳، ۸۴۔ مخدوم بلال المتوفی، ۹۳۱ھ کا ذکر۔۔۔
مزید