حضرت شیخ جمال الدین (جماد جمالی) آپ علمی و عملی کمالات کے جامع تھے والد کا نام رشید الدین جمال تھا ہزاروں طلبہ روزانہ آپ سے مستفید ہوتے تھے ، آپ کا قیام ساموئی کے مقام پر خانقاہ میں تھا۔ جام تماچی اور جام صلا ح الدین جیسے شہزادے شب و روز آپ کی چوکھٹ پر جبیں سائی کو اپنے لیے باعث عزت و افتخار سمجھتے تھے اور آپ کے آستانہ پر جاروب کشی کو اپنا معمول بنارکھا تھا ، بعض حاسدوں کو یہ بات گوارا نہ ہوئی اور یہ بے پر کی اڑادی کہ جام تماچی حضرت کی خدمت میں اس لیے حاضر رہتا ہے کہ آپ کی وساطت سے حکومت پر قابض ہوجائے، جام جو نہ جوان دونوں شہزادوں کا باپ تھا جب اس نے یہ خبر سنی تو اس کے دل میں وہم پیدا ہوا اس نے دنوں شہزادوں کا باپ تھا جب اس نے یہ خبر سنی تو اس کے دل میں وہم پیدا ہوا ا۔۔۔
مزیدحضرت جنید شاہ آپ صاحب حال بزرگ تھے، بیمارآپ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے ، آپ نے اپنے پیالہ میں پانی بھر کردیتے اوربیمار شفا یاب ہوجاتے تھے، مکلی پر جہاں حضرت کا مزار ہے وہیں آپ کی مستقل عبادت گاہ تھی۔ (تحفۃ الطاہرین ص ۹۷) (تذکرہ اولیاءِ سندھ )۔۔۔
مزیدحضرت جمن شاہ بخاری شہید آپ صاحب تصرف بزرگ ہیں۔ آپ کے متعلق یہ مشہور ہے کہ آپ حضرت محمد بن قاسم علیہ الرحمۃ کے ساتھ سرزمین سندھ میں وارد ہوئے ہیں اور جہاد کرتے ہوئے شہید ہوئے اور آپ کی اب بھی یہ جیتی جاگتی زندہ کرامت ہے کہ آپ کے مزار پر ایک نیم گرم پانی کا چشمہ ہے جس سے صدہاجسمانی اور روحانی مریضوں کو شفا ہوئی ہے اور ہو رہی ہے۔ آپ چوں کہ شہید ہوئےہیں اس لیے آپ کو حضرت سیدجمن شاہ بخاری شہید کہا جاتا ہے، آپ کا مزار پر انوار شارع فیصل کار ساز مارکیٹ کے قریب میں مر جع خلائق ہے ہر جمعرات کو آپ کا عرس لگتا ہے۔ مزید آپ کے حالات معلوم نہ ہوسکے۔ واللہ اعلم بالصواب (راقم نے دربار پر جاکر یہ معلومات فراہم کی ہیں) (تذکرہ اولیاءِ سندھ )۔۔۔
مزیدحضرت پرلوویر داس ف۔۔۔۔ ۹۳۰ ھ یہ ایک مجذوب تھے نسباً برہمن تھے یکایک شمع حق دل پر افروختہ ہوئی مشرف بہ اسلام ہوئےاور کو ہ گنج کے مقام پر عزلت کدہ میں جابیٹھے ، کچھ دن بعد مخلوق خدا کا آپ کی طرف رجوع ہوا، آپ کے کشف کا یہ عالم تھا کہ حاجتمندوں کو آپ کے پاس آکر اپنی حاجات بیان کرنے کی ضرورت نہ تھی، صاحب د یقۃ کا کہنا ہے کہ مجذوب مذکور کی خدمت میں حاضری کا شرف اسے بھی حاصل رہا ہے، او خود اس نےمجذوب کو بارہا دیکھا ہے،۹۲۰ یا ۹۳۰ میں وفات پائی کوہ گنج کے دامن میں مزار ہے۔ (کوہ گنج حیدر آباد سے متصل ایک جگہ ہے، مولف حدیقۃ الاولیاء ص ۲۳۱، ۲۳۳و تحفۃ الکرام ص ۱۷۹) (تذکرہ اولیاءِ سندھ )۔۔۔
مزیدحضرت بہاؤ الدین حاجی آپ شیخ بہاؤ الدین ذکریا ملتانی کی اولاد سے تھے، شریعت و طریقت کے جامع تھے،حضرت پیرمراد سے شرف بیعت حاصل تھا مزار شریف ٹھٹھہ میں ہے۔ (تحفۃ الکرام ج۳ص۲۴۸) (تذکرہ اولیاءِ سندھ )۔۔۔
مزیدحضرت بہاؤ الدین گودریہ آپ مخدوم نوح کے اجل خلفاء میں سے تھے صاحب وجد وحال واستغراق تھے، سید علی ثانی شیرازی کے ساتھ بسا اوقات محققانہ مجالس رہتی تھیں، حلقہ سماع میں آکر بے اختیار ہوجاتے تھے، آپ کا مزار میاں مٹھہ کے مزار کے پاس واقع ہے دونوں مزار مکلی پرہیں۔ (تحفۃ الطاہرین ص ۶۱، تحفۃ الکرام ج۳ص۲۵۰) (تذکرہ اولیاءِ سندھ )۔۔۔
مزیدحضرت بہاؤ الدین زکریا الملتانی حضرت شیخ بہاؤ الدین ذکریا ملتانی رحمہ اللہ ظاہری اور باطنی علوم میں یکتائے رزگار تھےوہ اسلام کے عظیم مبلغ تھے، سر زمین اولیاء ملتان کوآپ نے اپنی تبلیغی مساعی کا مرکز بنایا ہوا تھا۔ آ پ کے مزار اقدس سے ملحق خانقاہ طلبہ علم اور مبلغین کی آماجگاہ تھی، سلسلہ سہروردیہ کے اس عظیم صوفی بزرگ نے خاص طور پر سر زمین سندھ میں کلمہ ، حق کی سربلندی کے لیے ناقابل فراموش خدمات سر انجام دیں۔ آپ کرور کے مقام پر ۲۷ رمضان المبارک شب جمعہ کو پیدا ہوئے، آپ کی والدہ ماجدہ مولانا حسام الدین ترمذی کی بیٹی تھیں، یہ آپ کی کرامت تھی کہ آپ کی والدہ نے رمضان شریف کے دنوں میں آپ کو ہر چند دودھ پلانا چاہا مگر آپ نے نہ پیا ، ۱۲ سال میں قرآن کریم حفظ کرلیا اور حسن قرات پر بخوبی عبور حاصل کرلیا ، پندرہ سال میں علوم ظاہری و۔۔۔
مزیدحضرت بی بی رانی ولیہ عصر ، کاملہ دھر تھیں ، مگر ان کا حال لوگوں سے مخفی تھا، اتفاقاً ایک مریض کو شفادینے کی وجہ سے حال ظاہر ہوگیا۔ تو فرمانے لگیں اب اس شہر کے بعد زندگی کی حلاوت ختم ہوگئی۔ اسی دن انتقال فرماگئیں۔ ٹھٹھہ کے محلہ قند سر میں مزار ہے۔ (تذکرہ اولیاءِ سندھ )۔۔۔
مزیدحضرت بلالی مخدوم سمہ عہد کے قریب مخدوم بلالی بڑے پایہ کے بزرگ گزرے ہیں ۔ ان کا مزار مکلی پر ہے ۔ (تحفۃ الطاہرین ص ۱۰۹) (تذکرہ اولیاءِ سندھ )۔۔۔
مزیدحضرت برخوردار سید آپ حضرت غوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی کی اولاد امجاد سے تھے بغداد سے ٹھٹھہ تشریف لائے یہاں کے لوگوں نے آپ کی سیادت کا انکار کیا ، آپ کا طریقہ تھا کہ جب چلتہ دو اشخاص علم بردار آگے آگے چلتے تھے ، ایک جھنڈے کا نام قادری اور دوسرے کا نام حضوری تھا، ایک مرتبہ کوئی شخص وہ دونوں جھنڈے چھین کر بھاگ گیا۔گھر جا کر دونوں جھنڈوں کو مقفل کر کے رکھ دیا، حضر ت نے اس واقعہ کی شکایت عزت خان المعروف عزت پیر سے کی نواب صاحب نے حکم دیا کہ علاقہ کے سادات کو بلایا جائے جب وہ آگئے تو مجلس منعقد ہوئی سادات نے آپ کے سید ہونے کا انکار کیا اور کہا کہ اگر یہ اپنے سید ہونے میں سچے ہیں تو قادری حضوری علم کو اسی محفل میں منگوالے ، کہتے ہیں کہ بزرگ جوش میں آگئے۔ اور کہنے لگے اے قادری اور۔۔۔
مزید