غنوی۔ کنیت ان کی ابو عبداللہ ہے اور بعض لوگ ان کو خثعمی کہتے ہیں۔ ان سے ان کے بیٹے عبیداللہ نے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم سے ابو یاسر بن ابی حبہ نے اپنی سند سے عبداللہ بن احمد تک خبر دی وہ کہتے تھے کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا وہ کہتے تھے کہ ہمس ے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا اور میں نے عبداللہ بن محمد بن ابی شیبہ ے سنا وہ کہتے تھے کہ ہمیں زید بن حباب نے خبر دی وہ کہتے تھے کہ مجھ سے ولید بن مغیرہ معافری نے بیان کیا وہ کہتے تھے مجھ سے عبداللہ بن بشر خثعمی نے اپنے والد سے نقل کر کے بیان کیا کہ نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ یقینا تم لوگ قسطنطنیہ کو فتح کر لو گے اس وقت مسلمانوں کا سدار ایک بہت عمدہ شخص ہوگا اور وہ لشکر بھی بہت عمدہ لشکر ہوگا بشر کہتے تھے کہ مجھے سلمہ بن عبدالملک نے بلایا ور مجھ سے پوچھا تو میں نے اس سے یہ حدیث بیانکر دی پھر س نے قسطنطنیہ کا جہاد کیا۔ اس حدیث کو اب۔۔۔
مزید
ابن عمرو بن محصن بن عمرو قبیلہ بنی عمرو بن مبذول ے تھے پھر بنی نجار سے ہوئے کنیت ان کی ابو عمرہ انصاری جو خزرجی بخاری ہیں۔ ابنم ندہ اور ابو نعیم نے ان کا نسب اسی طرح بیانکیا ہے۔ اور ہشام کلبی نے کہا ہے کہ عمرو بن محصین بنعمرو بن عتیک بن عمرہ ابن مبذول بن مالک بن نجار بن ثعلبہ بن عمرو بن خزرج۔ یہ ان لوگوں میں ہیں جو جنگ بدر میں شریک تھے کنیت ان کی ابو عمرہ ہے ابن کلبی نے ان کا ذکر اسی طرح کیا ہے۔ کنیت عمرو بن محصن کی ابو عمرہ ہے اور ابو عمر نے کنیت کے بیان میں لکھا ہے کہ ابو عمرہ کا نام عمرو ہے اور کلبی نے ایک دوسرے مقام میں لکھا ہے کہ ابو عمرہ کا نام بشیر ہے اس میں شک نہیں کہ ان کے نام میں اختلاف قدیم ہے واللہ اعلم بعض لوگ کہتے ہیں کہ ان کا نام بشری ہے بعض لوگ کہتے ہیں ثعلبہ ہے اور بعض لوگ کہتے ہیں ثعلبہ ان کے بھائی تھے ان کا شمار اہل مدینہ میں ہے یہ ابو المقوم یحیی بن ثعلبہ بن عبد ۔۔۔
مزید
ابن عقربہ جہنی۔ اور بعض لوگ ان کو بشیر بھی کہتے ہیں ان کا شمار اہل فلسطین میں جو کنیت ان کی ابو الیان ہے۔ ان سے عبداللہ بن عوف نے روایت کی ہے ہ انھوں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص لوگوںکے دکھانے کے لئے کوئی کام کرے گا قیامت کے دن اللہ تعالی بھی اس کے ساتھ دکھانے سنانے کا معاملہ کرے گا ان کا تذکرہ ابن مندہ اور ابو عمر نے لکھاہے اور ابو نعیم نے ان کا تذکرہ بشر بن راعی العیر کے بیان میں لکھا ہے ور کہا ہے کہ صحیح نام بشیر ہے۔ ہم بھی انشاء اللہ ان کا ذکر بشیرکے نام میں کریں گے۔ (اسد الغابۃ جلد نمبر ۱)۔۔۔
مزید
بن عصمہ لیثی۔بعض لوگ ان کو ابن عطیہ کہتے ہیں ان سے ابو الطفیل نے رویت کی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا قبیلہ ازد کے لوگ میرے ہیں اور میں ان کا ہوں جب وہ (کسی پر)غصہ ہوتے ہیں تو انکی وجہس ے میں بھی (اس پر) غصہ ہوتا ہوں اور جب میں (کسی پر) غصہ ہوتا ہوں تو (اس پر) وہ بھی غصہ ہوتے ہیں اور جب وہ (کسی سے) خوش ہوتے ہیں تو انکی وجہسے میں بھی خوش ہوتا ہوں اور جب میں (کسی سے) خوش ہوتاہوں تو (اس سے) وہ بھی خوش ہوتے ہیں۔ یہ ابن مندہ اور ابو نعیم کا قول ہے۔ اور ابو عمر نے کہا ہے ہ بشر بن عصر مزنی نے کہا ہے کہ میں نے نبی ﷺ کو یہف رماتے ہوئے سنا کہ قبیلہ خزاعہ کے لوگ میرے ہیں اور میں ان کا ہوں۔ ان سے کثیر بن افلح ابو ایوب کے مولی نے روایت کی ہے اس کی سند میں ایک شیخ نمجہول ہیں اور اس حدیث میں ان کی موافقت ابو احمد عسکری نے کی ہے اور ابن مندہ اور ابو نعیم نے اپنی سند سے مکحول سے انھوں نے ابوذر سے رویات کی ۔۔۔
مزید
ابن عرقطہ بن خشخاش جہنی۔ بعض لوگ انھیں بشیر کہتے ہیں ابن مندہ نے کہا ہے ہ پہلا ہی قول زیادہ صحیح ہے فتح مکہ میں رسول کدا ﷺ کے ہمراہ تھے ان سے عبداللہ بن حمید جہنی نے ایک شعر روایت کیا ہے جو انھیں کا کہا ہوا ہے وہ شعر یہ ہے ونحن غداۃ الفتح عند محمد طلعنا امام الناس الفامقدما (٭ترجمہ۔ ہم فتح مکہ کی صبح کو محمد (ﷺ کے پاس تھے ہم لوگوں کے آگے رہتے تھے) ان کا تذکرہ ابنمندہ اور ابو نعیم نے لکھا ہے۔ (اسد الغابۃ جلد نمبر ۱)۔۔۔
مزید
ابن عبد۔ بصرہ کی سکونت اختیار کر لی تھی نبی ﷺ سے انھوں نے روایت کی ہے انھوں نے آنحضرت ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ تمہار یبھائی نجاشی کی وفات ہوگئی ہے لہذا تم لوگ ان کے لئے استغفار کرو۔ ان سے جہاں تک میرا علم ہے سوا عفان کے ور کسی نے روایت نہیں کی۔ ان کا تذکرہ ابو عمر نے لکھا ہے۔ (اسد الغابۃ جلد نمبر ۱)۔۔۔
مزید
ابن عبداللہ انصاری۔ قبیلہ بنی حارث بن خزرج سے ہیں جنگ یمامہ میں شہید ہوئے۔ ان کا نسب انصار میں معلوم نہیں ہوتا بعض لوگ ان کوبشیر کہتے ہیں یہ ابو عمر کا بیان ہے۔ ہمیں عمار نے سلمہ بن فل سے انھوں نیابن اسحاق سے جنگ یمامہ میں جو انصار قبیلہ بنی حارث بن خزرج سے شہید ہوئے تھے ان میں بشر بن عبداللہ کا نام بھی رویات کیا ہے ان کا نسب نہیں بیان کیا انشاء اللہ ان کا تذکرہ بشیر کے نام میں بھی آئے گا۔انکا تذکرہ ابو عمر نے لکھا ہے۔ (اسد الغابۃ جلد نمبر ۱)۔۔۔
مزید
ابن عاصم۔ بخاری نے کہا ہے کہ بشر بن عاصم نبی ﷺکے صحابی تھے انھوں نے صرف اسی قدر ذکر یا ہے اور ان کا تذکرہ بشربن عاصم بن سفیان سے علیحدہ کر کے لکھا ہے جن کا ذکر اوپر ہوچکا ہے اور انھوں نے ان کو صحابی لکھاہے او رپہلے بسر کو صحابی نہیں لکھا اور لوگوں نے ان کو نبی صحابی لکھا ہے واللہ اعلم۔ (اسد الغابۃ جلد نمبر ۱)۔۔۔
مزید
ابن عاصم بن سفیان ثقفی۔ اکثر علما نے ان کا نسب اسیطرح بیان یا ہے اور بعض نے ان کو غزوی قرار دیا ہے اور ان کا نسب اس طرح بیان کیا ہے عاصم بن عبداللہ بن عمر بن مخزوم مگر پہلا ہی قول صحیح ہے۔ یہ حضرت عمر بن خطاب کی طرف سے قبیلہ ہوازن کے صدقات وصول کرنے پر مامور تھے۔ ابو وائلنے رویتکی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے انھیں ہوازن کے صدقات پر مامور کیا یہ نہیں گئے تو حضرت عمر نے ان سے ملاقات کی اور کہا کہ تم کیوں نہیں گئے کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میری بات کا سننا اور ماننا تم پر فرض ہے انھوںنے کہا ہاں یہمعلوم ہے مگر میں نے رسول خدا ﷺ سے سنا ہے آپ فرماتے تھے کہ جو شخص مسلمانوں کے کسی کام پر مامور کیا جائے گا وہ قیامت کے دن جہنم کے پل پر لاکے کھڑا کیا جائے گا پھر اگر اس نے اچھا کام کیا ہے تو نجات پائے گا اور اگر اس نے برا کام کیا ہے تو وہ پل پھٹ جائے گا اور وہ جہنم میں بقدر ستر برس کی مسافت کے گہرا۔۔۔
مزید
ابن صحار۔ ان کا تذکرہ عبدان بن محمد نے صحابہ میں کیا ہے اور انھوںنے اپنی اسناد سے سلم بن قتیبہ سے انھوں نے بشر بن ضحار سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے کہا میں نے نبی ﷺ کی چادر کو دیکھا کہ وہ درس سے رنگی ہوئی تھی اور میں نے نبی ﷺ کے گدھے بندھنے کی جگہ کو دیکھا اس گدھے کا نام عفیرا تھا میں نبی ﷺ کے گھروں میں داخل ہوتا تھا (ان کی چھتیں ایسی نیچی تھیں کہ) میں ان کی چھتوں کو پا جاتا تھا۔ ان کا تذکرہ ابو موسی نے لکھا ہے اور کہا ہے کہ یہ بشر صحار بن عبد بن عمرو کے بیٹے ہیں اور بعض لوگ کہتے ہیں عبد عمر درازی کے بیٹِے ہیں۔ تبع تابعین میں ہیں حسن بصریا ور ان کے مثل اور لوگوں سے رویتکرتے ہیں۔ چادر کے دیکھنے اور گدھے کے بندھنے کی جگہ دیکھ لینے سے یہ صحابی نہیں ہوکستے کیوں کہ اگر نبی ﷺ کے آثار دیکھ لینے سے کوئی شخص صحابی ہو جائے تو بہت سے لوگ صحابی ہو جائیں گے اور سلم بن قتبیہ متاخرینس ے ہیں ان کی نسب۔۔۔
مزید