حضرت شیخ محمد یمنی علیہ الرحمۃ شیخ نجیب الدین برغش علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ ایک دن میں چند اصحاب کی جماعت کے ساتھ شیخ شہاب الدین علیہ الرحمۃ کی خدمت میں کھڑا تھا۔شیخ نے فرمایا کہ یاروں میں سے کوئی خانقاہ سے باہر جائے۔ایک مسافر شخص کو جو باہر پائے"اس کو اندر لائے۔کیونکہ محبت کی بو میرے دماغ میں آتی ہے۔ایک بار باہر گیا تو وہاں پر کسی کو نہ پایا۔واپس آیاکہ میں نے تو وہاں کسی کو نہیں پایا۔شیخ نے غصہ سے فرمایا کہ دوبارہ جا کہ تجھ کو مل جائے گا۔دوبارہ گیا۔ایک حبشیدیکھا۔جس پر مسافرت اور غربت کے آثار تھے۔اس کو اندر لایا۔اس نے ارادہ کیا کہ جوتیوں کی جگہ پر بیٹھ جائے۔شیخ نے کہا"اے شیخ محمد نزدیک آکہ تم سے محبت کی خوشبو آتی ہے۔وہ آگےبڑھا اور شیخ کے پہلو میں بیٹھ گیا۔شیخ اور اس نے آپس میں بھید کی باتیں کیں۔پھر اس حبشی نے شیخ کی ران پر بوسہ دیا۔شیخ نے فرمایا کہ دسترخوان لاؤ۔کچھ کھانا۔۔۔
مزیدحضرت شیخ ظہیر الدین عبدالرحمٰن بن علی برغش رحمتہ اللہ تعالٰی آپ اپنے باپ کے خالف الصدق اور خلیفہ برحق تھے۔جب آپ کی والدہ آپ سے حاملہ ہوئیں تو شیخ شہاب الدین نے ان کے لیے اپنے ایک خرقہ مبارک کا ایک ٹکڑا ارسال کیا۔جب پیدا ہوئے تو ان کو اس مین لپیٹ دیا۔اول خرقہ کو جو دنیا میں پہنا ہے"اس نے پہنا ہے۔جب بڑے ہوئے تو باپ کی خدمت میں مشغول ہوئے اور تربیت پائی۔باپ کی زندگی کے دنوں میں حج کو گئے۔عرفہ کی رات کو دیکھا کہ میں روضہ شریفہ رسول اللہﷺ میں آیاہوں اور سلام کہا۔حجرہ شریفہ میں سے آواز آئی"علیک السلام یا اباالنجاشی۔آپ کے باپ اس پر مطلع ہوئے اور اپنے اہل کو اس خواب کی خبردی۔ان کو خوشخبری سنائی کہ مقصود حاصل ہوگیا۔اس کے بعد درس کہا اور حدیث کی روایت کی اور تصنیف شروع کی۔آپ کی تصانیف میں سے ایک یہ ہے کہ عوارف کا ترجمہ کیا ہے اور اس میں بہت سی تحقیقات جو کشف و الہام سے معلو م ہوئی ہیں"لک۔۔۔
مزیدحضرت سلطان ولد علیہ الرحمۃ آپ نے سید برہان الدین محقق اور شیخ شمس الدین تبریزی کی لائق خدمتیں کی ہیں ،اور شیخ صلاح الدین کے ساتھ جو کہ ان کی بیوی کے باپ تھے،اچھا عقیدہ رکھتے تھے۔۱۱ سال تک چپلی حسام الدین کو اپنا قائم مقام اور باپ کا خلیفہ بنایا تھا۔کئی سال تک اپنے ولد کا کلام کی فصیح زبان اور فصیح بیان سے تقرر کیا کرتے تھے۔ان کی ایک مثنوی ہے،جو کہ حدیقہ حکیم سنائی کے وزن پر ہے۔بہت سے معارف و اسرار اس میں لکھے ہیں۔بارہا مولانا ان کو خطاب کرتے۔انت اشبہ الناس بی خلقا و خلقا یعنی تم مجھ سے خلق اور خلق میں بہت مشابہ ہو۔ان سے بہت محبت کرتے۔کہتے ہیں کہ آپ نے موٹے قلم سے مدرسہ کی دیوار پر لکھ رکھا تھاکہ ہمارا نہاؤالدین نیک بخت ہے،خوش زندگی اور خوش چلتا ہے۔واللہ اعلم کہتے ہیں کہ ایک دن ان پر مہربانی فرماتے تھے،اور کہتے تھے،اے بہاؤالدین ! میرا۔۔۔
مزیدحضرت شیخ حسام الدین حسن بن محمدؑ بن الحسن بن اخی ترک علیہ الرحمۃ جب شیخ صلاح الدین انتقال فرما گئے،تو مولانا کی خدمت کی مہربانی اور ان کی خلافت چپلی حسام الدین کی طرف منتقل ہو گئی،اور عشق بازی کی بنیاد ان سے رکھی ۔مثنوی کی نظم کا باعث وہ ہوئے۔کیونکہ جب چپلی حسام الدین نے اصحاب کا ملان خاطر الہٰی نامہ حکیم سنائی اور منطق الطیر شیخ عطار اور ان کے مصیبت نامہ کی طرف دیکھا ،تو مولانا سے درخواست کی کہ غزلیات کے اسرار ہوگئے ہیں،اگر ایسی کتاب جس کی طرز الہٰی نامہ سنائی یا منطق الطیر کی ہو،نظم کی جائے۔تاکہ دوستوں کے لیے یادگار رہے،تو نہایت مہربانی ہوگی۔مولانا نے اسی وقت اپنے دستار کے سرے سے ایک کاغذ چپلی کے ہاتھ میں دیا۔جس پر اٹھارہ بیت اول مثنوی کے لکھے ہوئے تھے۔اس شعر سے۔  ۔۔۔
مزیدحضرت سید برہان الدین محقق علیہ الرحمۃ آپ حسینی ہیں۔ترمذ کے رہنے والے ہیں۔مولانا بہاؤالدین ولد کے مریدوں میں سے ہیں۔اپنی شرافت کے سبب خراسان اور ترمذ کے لوگوں میں سید سروان مشہور تھے۔جس روز کہ مولانا بہاؤالدین ولد نے وفات پائی،آپ ترمذ میں ایک جماعت کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔کہنے لگے،افسوس کہ میرے حضرت استاد و شیخ اس جہان سے رخصت ہوگئے۔چند روز بعد مولانا جلال الدین کی تربیت کے لیے قونویہ کی طرف متوجہ ہوئے۔مولانا نے ۹ سال تک ان کی خدمت و ملازمت وہیں نیاز مندی کرتے رہے،تربیتیں حاصل کیں۔کہتے ہیں کہ جب شیخ شہاب الدین سہروردی روم میں آئے تھے،تو سید برہان الدین کی زیارت کو تشریف لائے۔سید راکھ پر بیٹھے تھے۔جگہ سے ہلے۔شیخ نے دور سے تعظیم کی اوروہیں بیٹھ گئے۔کوئی بات نہ ہوئی۔مریدوں نے پوچھا کہ سکوت کا کیا سبب تھا؟شیخ نے فرمایا کہ اہل حال کے سامنے۔۔۔
مزیدحضرت شیخ بہاؤالدین عمر علیہ الرحمۃ آپ شیخ محمد ؑ شاہ کے بھانجے اور مرید ہیں۔میں نے بعض اکابر سے سنا ہے۔وہ کہتے تھے معلوم نہیں کہ شیخ رکن الدین علاؤ الدولہ کے اصحاب کے سلسلہ میں کوئی ان کا ہم پلہ ہوا ہے۔بچپن سے مجذوب تھے۔جذبہ کے آثار ان پر ظاہر تھے۔نماز ادا کرنے کے وقت کس ی کو پاس بٹھا لیا کرتے تھےکہ رکعت کے شمار کی،ان کو اطلاع دے دیا کرے۔کیونکہ وہ خودبخود یاد نہ رکھ سکتے تھے۔ایک شروع میں نہایت پیاس کی وجہ سے جو اس گروہ کو ہوتی ہے۔اپنے ماموں شیخ محمد شاہ سے مقصود کے نہ پانے کی بابت باتیں کرتے تھے۔ان کے ماموں نے یہ شعر پڑھا۔ اگر نالد کے نالد کہ یارے در سفر دارد تو بارے انرچہ مے نالی کہ یارے دل بغل داری &n۔۔۔
مزیدحضرت مولانا شمس الدین محمد اسد علیہ الرحمۃ آپ ظاہری علوم میں طبیعت کی جودت اور تیز فہمی میں پورے مشہور تھے۔فرماتے تھے کہ تحصیل کے زمانہ میں مجھے راہ خدا کے سلوک کی خواہش قوی ہوئی۔اس وقت زین الدین خوانی علیہ الرحمۃ طالبوں کے ارشاد اور مریدوں کے تربیت میں مشغول تھے۔میں ایک دن ان کی مجلس میں پہنچا۔ایک جماعت کو بیعت کر رہے تھے،ان کو توبہ اور ذکر کی تلقین کر رہے تھے۔درویشوں کا قاعدہ ہوتا ہےکہ جب درویش کسی کے ہاتھ کو بیعت کے پکڑتا ہے،تو بعض اس درویش کے دامن کو پکڑ لیتے ہیں،اور بعض اس دوسرے کے دامن کو جہاں تک کہ پہنچ سکے،پکڑتے ہیں۔میں نے ان بعض کا دامن پکڑا۔جب میں اس مجلس سے باہر نکلا،تو مدرسہ میں اسی حجرہ میں جہاں میں پڑھتا تھا۔ذکر میں مشغول ہوا،اپنے اندرون بدن ذکر کی تاثیر زیادہ پاتا تھا۔یہاں تک کہ میرا باطن بالکل اس درسگاہ کی ۔۔۔
مزیدحضرت شیخ محمد شاہ فراہی علیہ الرحمۃ آپ ظاہری ، باطنی علوم سے پیراستہ تھے۔ایک واسطہ سے شاہ علی فراہی کے مرید ہیں۔آخر میں حج کا ارادہ کیا۔ہر مز کی راہ سے جب فوجان میں پہنچے تو بیمار ہوگئے۔وہیں وفات پائی اور وہیں آپ کی قبر ہے۔"صاحب کشف کرامت الہام" ہیں کہتے ہیں کہ حج کے سفر میں ایک شہر میں پہنچے ،جہاں بدچلن لوگ تھے۔آپ مراقبہ میں بیٹھے ہوئے تھے۔اتفاقاً چیخ ماری۔ایک عالم نے جو وہاں ہمراہ تھا۔اس کا سبب پوچھا۔آپ نے فرمایا کہ اس شہر کے خراب لوگوں کا حال مجھ پر منکشف ہوا۔ان میں ایک نہایت خوبصورت عورت میں نے دیکھی ۔خداوند ا اس عورت کو میرے لیے بخش ،میرے دل میں یہ آواز آئی کہ یوں کیوں نہیں کہتے کہ تجھے اس کی وجہ سے بخش دیں۔اس عورت نے اسی وقت توبہ کی توفیق حاصل کی۔ (نفحاتُ الاُنس)۔۔۔
مزیدحضرت شاہ علی فراہی علیہ الرحمۃ آپ شیخ رکن الدین علاؤ الدولہ کے مرید ہیں۔آپ کے والد فرہ کے حاکم تھے،اور بوڑھے ہوگئے تھے،چاہا کہ حکومت سے استغفار کریں،اور آخر عمر میں گوشہ نشین ہو کر طاعت و عبادت میں مشغول ہوجائیں۔اپنے بیٹے شاہ علی کو بادشاہ وقت کے لشکر کی طرف بھیج دیا۔تاکہ حکومت کا فرمان اپنے نام پر لے لے اور اس کے باپ کو معاف رکھیں۔ان کا گزر سمنان کے اطراف پر ہوا۔اس اطراف کے ڈاکوؤں سے ان کو لڑائی کا موقع ہوا۔چنانچہ ان کے سب متعلقین مارے گئے۔ان کو بھی بہت سے زخم لگے،مردوں میں پڑگئے۔شیخ رکن الدین علاؤ الدولہ کو عیب میں معلوم ہوا کہ فلاں موقع پر مردے پڑے ہیں۔ان میں ایک زندہ باقی ہے ،اور پوری قابلیت رکھتاہے،اس کو جا کر لانا چاہیے۔آپ گئے ،مگر وہاں کوئی زندہ نہ پایا۔دوبارہ پھر حکم ہوا،دوبارہ وہاں گئے۔تب بھی کسی کو زندہ نہ پایا۔تیسری دفعہ۔۔۔
مزیدحضرت مولانا فخر الدین لورستانی علیہ الرحمۃ آپ نے ظاہری علوم کی تحصیل کی ہوئی ہے۔ہمیشہ دل میں یہ تھا کہ تحصیل علوم کے بعد خدائے تعالی کی راہ کے سلوک میں مشغول رہو۔ایک دفعہ مصر کے ایک مدرسہ کے ایک گھر میں رہتے تھے،اور وہاں کتاب کے مطالعہ میں مشغول تھے۔مطالعہ کرتے کرتے تھک گئے۔طبیعت کع بہلانے کے لیے گھر سے باہر نکل آئے۔سلوک کی خواہش ان کے دل میں تازہ ہوگئی۔اپنے دل میں کہنے لگے،آخر ایک دن اس موجودہ بکھیڑے سے باہر نکلنا ہی پڑے گا،وہ آج ہی کا دن ہونا چاہیے۔دوبارہ گھر میں نہ گئے۔گھر کو ویسے ہی کتابوں اور رسالے اسباب کے ساتھ کھلے دروازہ کو چھوڑ دیا،اور شیخ شی اللہ رحمتہ اللہ کی خدمت میں کہ اس وقت مصر میں ارشاد کے لیے معین تھے۔گئے اور سلوک میں مشغول ہوئے۔ج تک وہ زندہ رہے،تب تک تو ان کی صحبت میں رہےاور جب وہ دنیا سے رحلت کر گئے،تو کسی ۔۔۔
مزید